سوال:
1) مفتی صاحب! میرا ایزی پیسہ جاز کیش کا کام ہے، کسٹمر اکاؤنٹ میں پانچ ہزار ڈلواتا ہے تو 50 روپے چارجز لیتے ہیں اور اگر کسٹمر 5 ہزار نکلواتا ہے تو ہم پانچ ہزار روپے پر 100 روپے کاٹتے ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے؟
2) میرے پاس کاروبار کے لیے پیسے نہیں ہیں، میں نے کسی سے تین لاکھ روپے لیے ہوئے ہیں، تین لاکھ سے جو بھی کماتا ہوں، پرافٹ جو بھی ہوتا ہے، اس میں سے کام کے حساب سے کبھی 400، کبھی 500، کبھی ہزار اور کبھی 700 اسے دیتا ہوں، فکس نہیں دیتا تو مجھے پوچھنا ہے کہ یہ سود میں تو شامل نہیں ہے؟
جواب: 1) کسٹمر کے اکاؤنٹ میں پیسے منتقل (Transfer) کرنے پر اضافی رقم کا کسٹمر کو بتا کر باہمی رضامندی سے طے شدہ متعین رقم لینا شرعاً درست ہے، (کیونکہ یہ سروس فراہم کرنے کی اجرت ہے) بشرطیکہ ایزی پیسہ/جاز کیش کمپنی کے ساتھ کیے گئے معاہدہ میں اس کی ممانعت نہ ہو، کمپنی کی طرف سے ممانعت کی صورت میں معاہدہ کی خلاف ورزی لازم آئے گی جوکہ شرعاً درست نہیں ہے۔
2) آپ کا سوال واضح نہیں ہے، براہ کرام اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ یہ رقم لیتے وقت نفع ونقصان میں شرکت کی بات طے ہوئی تھی یا صرف منافع دینے کی بات ہوئی تھی، نیز کیا انویسٹر سے لی گئی رقم ہر حال میں قابل واپسی ہوگی یا نقصان کی صورت میں وہ نقصان بھی برداشت کرے گا؟ ان باتوں کی وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (409/4، ط: دار الفکر)
(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية
و فیه ایضا: (411/4)
وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين ۔۔۔۔۔ ومنها أن تكون الأجرة معلومة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی