سوال:
کیا اسلام میں "خان" کو بطور کنیت استعمال کرنا جائز ہے، یا اس میں کوئی ممنوع چیز شامل ہے؟
کیا اسلامی ہدایات کے مطابق "جنید خان" نام رکھا جا سکتا ہے؟
جواب: اسلام میں اپنے نام کے ساتھ بطورِ شناخت قومی یا خاندانی نام کی نسبت لگانا جائز ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، البتہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اگر کوئی شخص قصداً اپنے نسب کو اپنی حقیقی قوم یا خاندان کے علاوہ کسی اور قوم یا خاندان کی طرف منسوب کرے، تاکہ اپنی خاندانی شرافت ظاہر کرے یا لوگوں کو یہ تاثر دے کہ وہ بھی اس خاندان کا حصہ ہے تو یہ سخت گناہ ہے۔
ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: "جو کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے والد کے علاوہ کی طرف اپنی نسبت کا دعوی کرے تو وہ کفر کے قریب پہنچ جاتا ہے اور جو کوئی اپنی نسبت ایسی قوم کی طرف کرے جس میں اس کا نسب نہ ہو تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔" (صحيح بخاري : حدیث نمبر: 3317)
لہٰذا اگر مذکورہ شخص "خان" قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتا ہو تو اس کے لیے لفظ "خان" کو بطورِ نسبت کے استعمال کرنا جائز ہے اور اسی مناسبت سے "جنید خان" نام رکھنا بھی درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (سورة الاحزاب، الایة: 5)
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِۚ-فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ مَوَالِیْكُمْؕ-وَ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖۙ-وَ لٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
تفسير الرازي: (97/7، ط: دار إحياء التراث العربي)
«كَقَوْلِهِ تَعَالَى: ادْعُوهُمْ لِآبائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ [الْأَحْزَابِ: 5] أَيْ أَعْدَلُ عِنْدَ اللَّهِ، وَأَقْرَبُ إِلَى الْحَقِيقَةِ مِنْ أَنْ تَنْسِبُوهُمْ إِلَى غير آبائهم.
وَهَذَا الثَّالِثُ: إِشَارَةٌ إِلَى دَفْعِ الضَّرَرِ عَنِ النَّفْسِ وَعَنِ الْغَيْرِ، أَمَّا عَنِ النَّفْسِ فَإِنَّهُ لَا يَبْقَى فِي الْفِكْرِ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ كَيْفَ كَانَ، وَهَذَا الَّذِي قُلْتُ هَلْ كَانَ صِدْقًا أَوْ كَذِبًا، وَأَمَّا دفع الضرر عَنِ الْغَيْرِ فَلِأَنَّ ذَلِكَ الْغَيْرَ رُبَّمَا نَسَبَهُ إِلَى الْكَذِبِ وَالتَّقْصِيرِ فَيَقَعُ فِي عِقَابِ الْغِيبَةِ وَالْبُهْتَانِ، فَمَا أَحْسَنَ هَذِهِ الْفَوَائِدَ وَمَا أَدْخَلَهَا فِي الْقِسْطِ، وَمَا أَحْسَنَ مَا فِيهَا مِنَ الترتيب.
صحيح البخاري: (رقم الحدیث: 3317، 1292/3، ط: دار ابن كثير)
«عن أبي ذر رضي الله عنه: أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (ليس من رجل ادعى لغير أبيه - وهو يعلمه - إلا كفر، ومن ادعى قوما ليس له فيهم نسب، فليتبوأ مقعده من النار).
فتح الباري لابن حجر: (540/6، ط: السلفية)
وقوله: ومن ادعى قوما ليس له فيهم نسب فليتبوأ مقعده من النار في رواية مسلم، والإسماعيلي ومن ادعى ما ليس له فليس منا، وليتبوأ مقعده من النار وهو أعم مما تدل عليه رواية البخاري، على أن لفظة نسب وقعت في رواية الكشميهني دون غيره ومع حذفها يبقى متعلق الجار والمجرور محذوفا فيحتاج إلى تقدير، ولفظ نسب أولى ما قدر لوروده في بعض الروايات، وقوله: فليتبوأ أي ليتخذ منزلا من النار، وهو إما دعاء أو خبر بلفظ الأمر ومعناه هذا جزاؤه إن جوزي، وقد يعفى عنه، وقديتوب فيسقط عنه۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی