سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک شخص کا بینک میں اکاؤنٹ ہے، اور سال کے آخر میں جب زکوۃ دینے کا وقت آتا ہے، تو وہ اپنے اکاؤنٹ سے جتنا منافع ملتا ہے، وہ زکوۃ کی مد میں نکال کر غریبوں میں بانٹ دیتا ہے، اور اس پر ثواب کی امید کرتا ہے، کیا اس کو ثواب ملے گا؟ اور اس طرح سود کی پیسوں سے زکوۃ دینا صحیح ہے؟
جواب: واضح رہے کہ سود کے پیسے صدقے کی نیت سے نہیں دینے چاہیے، بلکہ بغیر ثواب کی نیت کے کسی محتاج کو دے دیئے جائیں، صدقہ تو پاک چیز کا دیا جاتا ہے، سود کا نہیں، لہذا سود کی رقم سے زکوۃ ادا کرنا صحیح نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوۃ المصابیح: (باب فضل الصدقۃ، ص: 167، ط: یاسر ندیم دیوبند)
عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:لا یقبل اﷲ الا الطیب۔
رد المحتار: (292/2)
انما یکفر اذا تصدق بالحرام القطعی أی مع رجاء الثواب الناشی عن استحلالہ کما مر فافہم۔
و فیہ ایضاً: (291/2)
في القنیۃ: لو کان الخبیث نصاباً لا یلزمہ الزکوٰۃ لأن الکل واجب التصدق علیہ فلا یفید ایجاب التصدق ببعضہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی