سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، حضرت ! اس کی وضاحت فرما دیجئے کہ جو عورتیں دوسری عورتوں کے علاج کے لئے ڈاکٹر یا نرس کا کام کرتی ہیں یا عورتوں کو پڑھانے کے لئے استانی کی نوکری کرتی ہیں، یا پاسپورٹ یا شناختی کارڈ کے دفتر میں عورتوں کی فوٹو کھینچنے کے لئے کام کرتی ہیں، اگرچہ گھر میں دوسرے کمانے والے موجود ہوں تو اس صورت میں ان عورتوں کا کام کرنا کیسا ہے؟ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تعلیم اور علاج وغیرہ کے لئے ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ ہماری مستورات کا علاج یا تعلیم دوسری مستورات کے ذریعے سے ہو تو جو مستورات یہ کام کرتی ہیں، ان کا کام کرنا کیسا ہے؟
جواب: خواتین اگر میڈیکل سائنس، حکمت یا ہوم اکنامکس کی تعلیم اس غرض سے حاصل کریں کہ ان علوم کو مشروع طریقے پرعورتوں کی خدمت کے لئے استعمال کریں گی تو ان علوم کی تحصیل میں بذاتہ کوئی حرمت و کراہت نہیں، بشرطیکہ ان علوم کی تحصیل کے بعد ان کے استعمال میں پردے اور دیگر احکام شریعت کی پوری رعایت رکھی جائے، اگر کوئی خاتون ان تمام احکام کی رعایت رکھتے ہوئے یہ علوم حاصل کرے، پھر مستورات کی ہی خدمت کرے تو اس کی شریعت میں گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 34)
الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ....الخ
و قولہ تعالی: (الأحزاب، الآیۃ: 33)
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى۔۔۔۔الخ
و قولہ تعالی: (الأحزاب، الآیۃ: 53)
وإذا سألتموهن متاعاً فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن۔۔۔۔الخ
رد المحتار: (42/1، ط: دار الفکر)
وأما فرض الكفاية من العلم، فهو كل علم لا يستغنى عنه في قوام أمور الدنيا كالطب والحساب والنحو واللغة والكلام والقراءات وأسانيد الحديث۔۔۔الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی