سوال:
حضرت یہ فرمائیے کہ اگر ایک شخص صبح مدینہ منورہ سے احرام باندھ کر مکہ کی طرف جائے تو راستے میں صبح کے اذکار کرنا افضل ہے یا تلبیہ پڑھنا؟
واضح رہے کہ صبح کے اذکار میں تقریباً ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے، کل سفر تقریباً چار گھنٹے کا ہے. جزاک اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ احرام کی ابتداء میں ایک مرتبہ تلبیہ پڑھنا شرط ہےاورایک سے زائد مرتبہ تلبیہ پڑھنا مسنون ہے، مگر ہر حال میں اٹھتے بیٹھتے، کھڑے بیٹھے، اورچلتے پھرتے، غرض ہر حالت میں تلبیہ زیادہ سے زیادہ پڑھنا مستحب ہےاور تلبیہ کا یہ حکم احرام باندھنے کے وقت سے شروع ہوتا ہے، جو عمرہ میں طواف شروع کرنے تک اور حج میں دسویں ذی الحجہ کو جمرۂ عقبہ کی رمی کرنے تک جاری رہتا ہے۔
تلبیہ کے منقول الفاظ یہ ہیں: لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ۔
البتہ دیگر اذکار مثلاً لا الٰہ الا اللہ، الحمد للہ وغیرہ بھی تلبیہ کے قائم مقام ہوسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (فصل فی الاحرام و صفة المفرد، 483/2، ط: دار الفکر)
والحاصل أن اقتران النية بخصوص التلبية ليس بشرط بل هو السنة وإنما الشرط اقترانها بأي ذكر كان.
و فیہ ایضا: (513/2، ط: دار الفکر)
(قوله وقطع التلبية بأولها) أي في الحج الصحيح والفاسد مفردا أو متمتعا أو قارنا،۔۔۔۔۔۔وقيد بالمحرم بالحج لأن المعتمر يقطع التلبية إذا استلم الحجر لأن الطواف ركن العمرة فيقطع التلبية قبل الشروع فيها۔
غنیة الناسک: (ص: 75، ط: ادارة القرآن کراتشی)
والتلبیۃ مرۃ شرط وہو عند الاحرام لا غیر والزیادۃ علی المرۃ سنۃ والإکثار منہا مستحب فی کل حال قائماً و قاعداً ومضطجعاً وماشیاً وراکباً ونازلاً وواقفاً وسائراً وطاہراً ومحدثاً وجنباً وحائضاً۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی