resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: دو مہینے کا حمل ضائع کروانے (DNC) کے بعد جاری ہونے والے خون کا شرعی حکم (32202-No)

سوال: السلام علیکم! میرا حمل ٹھہرنے کے بعد مجھے تقریباً دو مہینے تک مسلسل خون آتا رہا، میں اپنی نمازیں ادا کرتی رہی، کچھ روز خون رکا اور پھر ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق مجھے dnc کروانا پڑی، کیونکہ بچے کے اعضا نہیں بنے تھے، اس کے بعد مجھے مسلسل خون آرہا ہے۔ میرا یہ سوال ہے کہ مجھ پر غسل کب واجب ہوگا اور میں نمازیں کب سے ادا کروں گی؟ آج میرا نوواں دن ہے۔ میری ماہواری کے ایام زیادہ تر سات ہوتے ہیں مگر کبھی کبھار شازو نازر آٹھ بھی ہوجاتے ہیں، اگر مجھے دس دن بعد غسل کرنا ہے تو کیا مجھ پر کوئی نمازیں قضا بھی ہوں گی؟

جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ حمل کے اعضاء (ہاتھ، پاؤں وغیرہ) نہیں بنے تھے، اس لیے اسقاطِ حمل کے بعد جاری ہونے والا خون نفاس شمار نہیں ہوگا، البتہ اگر خون تین دن یا اس سے زیادہ جاری رہے (جیسا کہ مذکورہ صورت میں نو دن سے جاری ہے) اور اس سے پہلے ایک کامل طہر (یعنی پاکی کی حالت میں پندرہ دن) گزر چکا ہو تو یہ خون حیض کا شمار ہوگا، ورنہ استحاضہ کا ہوگا۔
حیض ہونے کی صورت میں اگر خون دس دن پر رُک جاتا ہے تو یہ دس دن حیض کے شمار ہوں گے اور عورت کی عادت سات یا آٹھ دن (آخری مرتبہ جتنے دن خون آیا ہو) سے دس دن کی طرف منتقل ہوجائے گی، لیکن اگر خون دس دن سے تجاوز کرجائے تو عورت سابقہ عادت کے موافق (سات یا آٹھ دن) حیض کے اور بقیہ دن استحاضہ کے شمار کرے گی، استحاضہ میں عورت کے ذمہ نماز پڑھنا لازم ہے اور چونکہ مسلسل خون جاری ہے، اس لیے مستحاضہ عورت ہر نماز کے لیے وضو کرے گی اور جب نماز کا وقت نکل جائے گا تو خود بخود اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر مختار مع رد المحتار: (549/1، ط: دار الفکر)
(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولا يستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوما (ولد) حكما (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثا وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة
قوله: (ولا يستبين خلقه إلخ)……. أقول: لكن يشكل على ذلك قول البحر: إن المشاهد ظهور خلقه قبل هذه المدة، وهو موافق لما في بعض روايات الصحيح «إذا مر بالنطفة ثنتان وأربعون ليلة بعث الله إليها ملكا فصورها وخلق سمعها وبصرها وجلدها» وأيضا هو موافق لما ذكره الأطباء. نعم نقل بعضهم أنه اتفق العلماء على أن نفخ الروح لا يكون إلا بعد أربعة أشهر أي عقبها ……. ولا ينافي ذلك ظهور الخلق قبل ذلك؛ لأن نفخ الروح إنما يكون بعد الخلق

الھندیة: (41/1، ط: دار الفکر)
المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق۔۔۔۔ ويبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق. هكذا في الهداية وهو الصحيح

و فیه ایضاً: (39/1، ط: دار الفكر)
انتقال العادة يكون بمرة عند أبي يوسف وعليه الفتوى. هكذا في الكافي۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Women's Issues