resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ذاتی رہائش کے لیے زیرِ تعمیر گھر ضروریات اصلیہ میں داخل ہے (32204-No)

سوال: السلام علیکم! ایک شخص کرائے کی مکان میں رہتا ہے، اس کے پاس ایک پلاٹ ہے جس پہ کنسٹرکشن کرنے کے لئے حکومت پنجاب نے گھر بنانے کی اسکیم کے لئے ساڑھے سات لاکھ قرضہ دیا ہے، سارا قرضہ جو حکومت پنجاب کی طرف سے اپروو تھا وہ 15 لاکھ کا تھا۔ اس شخص نے یہ ساری رقم (ساڑھے سات لاکھ جو پہلی قسط کے طور پہ ملے تھے) گھر پہ لگائی لیکن اس رقم سے وہ گرے اسٹرکچر مکمل نہ کرسکا جو حکومت پنجاب کو اگلی قسط کے لئے لازمی مکمل چاہیے تھا۔ اس میں اس کو اس بات کا بھی کہا گیا کہ اگر 70 دن میں کام مکمل نہ کیا گیا تو باقی ساڑھے سات لاکھ نہیں دیے جائیں گے اور جو پیسے دیے گئے ہیں وہ واپس طلب کیے جائیں گے۔ ایسی صورت میں کیا اس شخص کو زکوة کی مد میں رقم دی جاسکتی ہے؟ اس شخص کے پاس اس پلاٹ کے (جو اس نے اپنی رہائش کے ارادے سے رکھا ہوا ہے) علاوہ کوئی مال نہیں ہے۔ پلاٹ کی قیمت 20 لاکھ فرض کرلیں۔ (جو کہ قرضے کی رقم سے زیادہ ہے)

جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر مذکورہ شخص کے پاس کوئی دوسرا ذاتی پلاٹ یا رہائش کا گھر نہیں ہے تو مذکورہ زیر تعمیر پلاٹ ضروریات اصلیہ میں داخل ہے، اس لیے اگر مذکورہ شخص کے پاس اتنی رقم، سونا، چاندی یا مالِ تجارت نہیں ہے جس سے قرض ادا ہونے کے بعد بھی وہ صاحبِ نصاب رہے تو ایسے شخص کو زکوة دی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (262/2، سعید)
وليس في ‌دور ‌السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة؛ لأنها مشغولة بحاجته الأصلية وليست بنامية۔

الھدایه: (224/1، ط: مکتبه رحمانیه)
و لا یجوز دفع الزکوہ الی من یملک نصابا من ای مال کان، لان الغنی الشرعی مقدربه، و الشرط ان یکون فاضلا عن الحاجۃ الاصلیۃ، و انما النماء شرط الوجوب، و یجوز دفعھا الی من یملک اقل من ذلک و ان کان صحیحا مکتسبا، لانہ فقیر، و الفقراء ھم المصارف، و لان حقیقۃ الحاجۃ لا یوقف علیھا، فادیر الحکم علی دلیلھا، و ھو فقد النصاب۔

کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: (رقم الفتویٰ: 144209200502)

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat