سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں فری لانسنگ کا کام کرنا چاہتا ہوں۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ ہم باہر کے کسی بندے کے نام سے آئی ڈی بناتے ہیں اور پھر آن لائن ایسے لوگوں کو ڈھونڈتے ہیں جنہیں ویب سائٹ بنوانی ہو یا لوگو بنوانا ہو یا چلڈرن بکس بنوانی ہو تو ہم ان کو ڈھونڈتے ہیں، پرائس فکس کرتے ہیں اور ان کے حساب سے جیسے وہ کہتے ہیں ہم چیز کو بنا دیتے ہیں۔
میرے سوالات یہ ہیں:
1) کیا ہم کسی دوسرے بندے کے نام سے آئی ڈی بنا سکتے ہیں؟ کیونکہ اگر ہم اپنے نام سے بناتے ہیں تو باہر کے لوگ کام نہیں کرواتے، اس میں یہ ہے کہ ہم بس نام اپنا نہیں رکھتے لیکن سروسز جو دیتے ہیں، وہ کلائنٹ جیسا کہتا ہے بالکل ویسی دیتے ہیں، اس میں ہم کوئی دھوکا نہیں کرتے۔
2) میں نے سنا ہے کہ تصویریں وغیرہ بنانا جائز نہیں ہے، لیکن اب آج کل کے زمانے میں ہر چیز پر تصویر تو ہوتی ہی ہے، اب جیسے اگر ہمیں ویب سائٹ بنانی ہے تو اس میں بھی کسی عام بندے کی یا کسی ماڈل وغیرہ کی تصویر ڈالنی پڑتی ہے، اس کے بغیر زیادہ تر ویب سائٹ مکمل نہیں ہوتی۔ اگر ہم لوگو بناتے ہیں تو اس میں بھی تصویر بنوانی پڑتی ہے۔ اگر ہم چلڈرن بک بناتے ہیں تو اس میں بھی کارٹونز کی تصاویر بنانی پڑتی ہیں تو اس میں کیا جائز اور کیا جائز نہیں ہے؟ اس بارے میں بھی رہنمائی فرمادیں۔
3) تیسرا سوال یہ کہ اب آج کل ہر چیز پر تصویریں ہوتی ہیں، جیسے ہم اسکولز کی کتابیں دیکھ لیں، اس میں بھی تصویریں ہوتی ہیں۔ باہر سے کوئی پروڈکٹ خریدیں تو اس پر بھی تصویر ہوتی ہے تو ہمارا ایسی چیزوں کو خریدنا یا استعمال کرنا کیسا ہے؟
اس میں میری تھوڑی رہنمائی فرما دیں کہ کیا جائز ہے اور کیا نہیں یا پھر کوئی چیز کس صورت میں جائز ہے؟ یہ بھی بتا دیجئے گا، جیسے ڈراپ شپنگ کا مسئلہ میں نے پوچھا تھا تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ "Shop Now کا آئیکون رکھتے ہو تو جائز نہیں ہے، لیکن اگر آپ Order Now کا رکھتے ہو تو جائز ہو جائے گا۔ ایسا کوئی راستہ ہمارے کام میں ہو تو مجھے بتا دیجئے گا۔
جواب: 1- فری لانسنگ کا کام کرنے کے لئے کسی دوسرے بندہ کے نام سے آئی ڈی بنانا اور کلائنٹ کے سامنے اپنے آپ کو غیر ملکی ظاہر کرنا ایک قسم کا جھوٹ اور دھوکہ ہے، اور اگر یہ قانوناً منع ہو تو قانون کی خلاف ورزی کا گناہ بھی ہوگا، لہٰذا اس سے بچنا لازم ہے۔ البتہ آپ جو سروسز فراہم کرتے ہیں، اگر ان میں کوئی شرعی خرابی نہ ہو اور پوری دیانت داری سے کلائنٹ کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق کام کیا جائے تو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حرام نہیں ہوگی۔
2- شریعتِ مطہرہ میں جان دار کی تصویر کھینچنا یا تصویر بنانا جائز نہیں ہے، البتہ بعض علماء کا خیال ہے کہ اسکرین پر نظر آنے والی شکلیں جب تک ڈیجیٹل حالت میں ہوں، وہ تصویر کے حکم میں نہیں ہیں، لہذا اگر آپ کا کام صرف ڈیجیٹل تصاویر سے متعلق ہے تو اس کو حرام نہیں کہا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ جس چیز کو خارج میں بغیر تصویر کے دیکھنا جائز نہیں، اس کی ڈیجیٹل تصویر بنانا یا دیکھنا بھی جائز نہیں، لہذا اگر آپ کو کام کے دوران غیر شرعی امور پر مشتمل مثلاً خواتین کی تصاویر یا فحش تصاویر بنانی پڑتی ہوں ، تو ان غیر شرعی تصاویر کی حد تک کام اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی دونوں حرام ہوں گی۔
3- جن چیزوں پر جاندارکی تصویر بنی ہوئی ہوتی ہے، ان کی خرید و فروخت سے مقصد اگر وہ چیز خریدنا ہو، اس تصویر کی خرید و فروخت مقصود نہ ہو( جیسا کہ شیمپو یا صابن وغیرہ) اور وہ چیز حلال بھی ہو تو ایسی چیزیں خریدنا جائز ہے ، البتہ جن چیزوں میں مقصد تصویر خریدنا یا بیچنا ہوتا ہو( جیسے کہ مجسمہ، ڈمیز اور ایسے کھلونے) ان کو خریدنا اور بیچنا دونوں ناجائز ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (52/4، ط: دار الرسالة العالمية)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "المسلم أخو المسلم لا يخونه ولا يكذبه، ولا يخذله، كل المسلم على المسلم حرام عرضه وماله ودمه، التقوى ها هنا، بحسب امرئ من الشر أن يحتقر أخاه المسلم"
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (532/1، ط: دار الجيل)
تلزم الأجرة باستيفاء المنفعة أي باستيفاء المنفعة المعقود عليها في الإجارة كلها أو بعضها أو إيفاء الأجير العمل الذي استؤجر لأجله وإتمامه؛ لأنه بذلك تتحقق المساواة وتلزم الأجرة سواء أكانت الإجارة صحيحة أو فاسدة، إلا أنه يلزم في الإجارة الصحيحة الأجر المسمى وفي الإجارة الفاسدة أجر المثل.
فقه البیوع: (321/1، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
أما إذا کان المبیع شیئا آخر وھو مشتمل علی صور فتدخل فی البیع تبعا، فیجوز بیعها. وھذا مثل الجرائد والصحف والکتب التی یقصد منها مضمونھا المباح، ولکنھا ربما تشتمل علی صور ممنوعة. وکذلك ما عمت به البلوی من أن العلب التی تعبأ بھا الأشیاء المباحة، یشتمل أکثرھا علی صور، فلا یمنع من بیعها إذا کان المقصود الأشیاء المباحة دون الصور.
واللہ تعالٰی أعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی