سوال:
میں ایک ادارے میں مدرس ہوں،مجھے اس مدرسے کے بارے میں ابھی معلوم ہوا کہ وہاں پر زکوۃ کے مال کی تملیک نہیں ہوتی ہے، ایسے ہی زکوۃ کا مال استعمال کر لیا جاتا ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس مدرسے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ میرا اس مدرسے میں پڑھانا کیسا ہے؟ نیز وہاں سے جو میری تنخواہ ہوتی ہے، اس تنخواہ کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک (مستحقِّ زکوٰۃ کو مالک بنانا) ضروری ہوتی ہے، مستحقِّ زکوٰۃ کو مالک بنائے بغیر زکوٰۃ کا مال خرچ کرنے سے زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوتی۔
پوچھی گئی صورت میں اگر واقعتاً مذکورہ ادارے میں زکوٰۃ کے مال کی تملیک نہیں کی جاتی تو ادارے کے ذمّہ داران کے ساتھ مناسب طریقہ سے بات کرکے انہیں زکوٰۃ کے مال میں تملیک کی رعایت رکھنے پر آمادہ کیا جائے اور ان کو سمجھایا جائے کہ تملیک کے بغیر مالِ زکوٰۃ کو دیگر مصارف میں خرچ کرنا لوگوں کی زکوٰۃ کو ضائع کرنا ہے۔
البتہ اس کے باوجود اس ادارے میں پڑھانے کی گنجائش ہوگی اور ایسی صورت میں اپنی خدمات کے عوض صدقاتِ واجبہ (زکوٰۃ وغیرہ) کے علاوہ کی رقوم سے تنخواہ لینا جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (344/2، ط: دار الفكر)
"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)".
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی