سوال: 
                        ایک شخص پاکستان میں معاشی تنگی، سماجی ناانصافی اور زندگی کی شدید مشکلات سے پریشان ہو کر یہ جملہ کہتا ہے: "پاکستان میں زندگی گزارنے کے بعد بھی قبر اور آخرت میں حساب دینا ہوگا" تو کیا اس شخص کے اس قول سے کفر لازم آتا ہے یا یہ محض شکوہ و اظہارِ تکلیف شمار ہوگا؟
             
            
            
                جواب: واضح رہے کہ سوال میں ذکر کردہ جملہ میں قبر اور آخرت کے سوال و جواب کا انکار یا اس کا استخفاف و استہزاء صراحتاً موجود نہیں ہے، البتہ اس میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر ناشکری کا اظہار کیا گیا ہے، اس لیے مذکورہ شخص کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفار کرے اور آئندہ اس قسم کے کلمات کہنے سے مکمل اجتناب کرے۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث:6537، ط: دار طوق النجاۃ)
حَدَّثَتْنِي عائِشَةُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ أَحَدٌ يُحَاسَبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا هَلَكَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا ذَلِكِ الْعَرْضُ وَلَيْسَ أَحَدٌ يُنَاقَشُ الْحِسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا عُذِّبَ۔
البحر الرائق: (134/5، ط: المکتب الاسلامی)
وفي الخلاصة وغيرها إذا كان في المسألة وجوه توجب التكفير ووجه واحد يمنع التكفير فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير تحسينا للظن بالمسلم زاد في البزازية إلا إذا صرح بإرادة موجب الكفر فلا ينفعه التأويل حينئذ وفي التتارخانية لا يكفر بالمحتمل لأن الكفر نهاية في العقوبة فيستدعي نهاية في الجناية ومع الاحتمال لا نهاية اه۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب 
دارالافتاء الاخلاص، کراچی