resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: قبرستان کے پاس پھول بیچنا اور کتبے اور ماربل کا کاروبار کرنا (32242-No)

سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
1) معلوم یہ کرنا ہے کہ میرے ایک عزیز پندرہ شعبان کی رات قبرستان میں پھول فروخت کرتے ہیں جو خریدار قبر پر ڈالتے ہیں، جبکہ علماء قبر پر پھول ڈالنے کو بدعت کہتے ہیں تو اس موقع پر جب ہمیں یہ معلوم ہوکہ خریدار پھول قبرپر ڈالے گا تو ہماری اس کام سےحاصل ہونے والی آمدنی جائز ہوگی؟
2) دوسرا سوال کہ حدیث کہ مطابق قبر پکی اور اونچی کرنا حرام وناجائز ہے ۔ میرا کام ماربل کا ہے، گراہک کے کہنے پر میں قبر کےکتبے بھی بناتا ہوں اور قبر کو ماربل لگاکر پکی اور اونچی بھی کرتا ہوں، کیا میرے کام اور اس کام سے حاصل ہونے والی آمدنی جائز ہوگی؟ ازراہ کرم جواب عنایت فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا

جواب: 1) پھولوں کا کاروبار بذات خود جائز ہے، جبکہ بیچنے والے کا مقصد پھول بیچ کر منافع کمانا ہو۔ خریدار اگر اس کا غلط استعمال کرتا ہے تو بیچنے والے کی کمائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، البتہ ایسی مخصوص جگہ یا مخصوص ایام (جیسا کہ سوال میں ذکر ہے) جہاں غالب استعمال غلط مقاصد کیلئے ہوتا ہو، ایسی جگہ بیچنے سے احتیاط کرنا چاہیے، تاہم محض اس وجہ سے اس کی کمائی کو حرام نہیں کہا جا سکتا۔
2) قبر کی نشاندہی کی ضرورت کی وجہ سے قبر پر کتبہ وغیرہ لگانا جائز ہے، اس لیے ایسے کتبے بنانا اور بیچنا شرعاً درست ہے، بشرطیکہ اس پر قرآنی آیات وغیرہ نہ لکھی جائیں۔

نیز جہاں قبر کے بوسیدہ ہونے اور بے حرمتی کا امکان ہو تو وہاں پر قبر کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے درمیانی حصہ کو چھوڑ کر قبر کے چاروں اطراف سے پختہ کرنے کی گنجائش ہے، لیکن یہ مقصد پتھر یا سیمنٹ وغیرہ سے حاصل ہوسکتا ہے، جبکہ ماربل ٹائل وغیرہ میں تزیین و آرائش کا پہلو غالب ہے، اس لئے ایسی چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے، نیز ایسی جگہوں پر جہاں ماربل کا غالب استعمال ناجائز مقصد کے لیے ہو، ایسی جگہ ماربل بیچنے اور قبر پر لگانے سے احتیاط کرنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (المائدۃ، الآية: 2)
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ و الْعُدْوَانِ....الخ

المبسوط للسرخسي: (باب الإجارۃ الفاسدۃ، 29/19، ط: المکتبۃ الحبیبیة)
ولا بأس بأن یؤاجر المسلم دارًا من الذمي لیسکنہا، فإن شرب فیہا الخمر أو عَبَدَ فیہا الصلیب أو أدخل فیہا الخنازیر، لم یلحق المسلم إثم في شيء من ذٰلك؛ لأنه لم یؤاجرها لذٰلك، والمعصیة في فعل المستاجر، وفعله دون قصد رب الدار، فلا إثم علی رب الدار في ذٰلك

تکملة فتح الملهم: (608/3، ط۔ المکتبة الأشرفیة)
والظاہر أن هذہ الکراہة إنما تثبت إذا تعاطاہ الرجل لغرض غیر مشروع، وأما إذا تعاطاہ لغرض مشروع، کالدواء والضماد وغیرہ فیما یجوز استعماله فیه، فالظاہر انتفاء الکراہة حینئذ

فقه البیوع:(1/194، ط. مکتبة معارف القرآن)
وکذٰلک الحکم فی برمجة الحاسب الآلی (الکمبیوتر) لبنك ربوی، فإن قصد بذٰلك الإعانة، أو کان البرنامج مشتملا علی مالا یصلح إلا فی الاعمال الربویة،أو الأعمال المحرمة الأخری، فإن العقد حرام باطل. أما اذا لم یقصد الإعانة، ولیس فی البرنامج ما یتمحض للأعمال المحرمة، صح العقد وکرہ تنزیها.

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: (ص: 611، ط: دار الكتب العلمية)
قوله: "‌ولا ‌يجصص" به قالت الثلاثة، لقول جابر نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تجصيص القبور وأن يكتب عليها وأن يبنى عليها رواه مسلم وأبو د اود والترمذي وصححه ۔۔۔ قوله: "ويكره البناء عليه" ظاهر إطلاقه الكراهة أنها تحريمية قال في غريب الخطابي نهى عن ‌تقصيص القبور وتكليلها انتهى التقصيص التجصيص والتكليل بناء الكاسل وهي القباب والصوامع التي تبنى على القبر ۔۔۔ وقد اعتاد أهل مصر وضع الأحجار حفظا للقبور عن الإندارس والنبش ولا بأس به.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial