سوال:
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت ہوں گے۔
ہمارے یہاں مارکیٹ میں چاول کے خالی کٹے فروخت ہوتے ہیں، کچھ چاول کی کٹے بڑی نامور میلوں کے ہوتے ہیں جو اچھے پیسوں میں فروخت ہوتے ہیں، کٹے خریدنے والے مشہور میلوں کے کٹوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آپ نیچے سے سلائی کھول کے ہمیں فروخت کریں گے تو سو روپے کا لیں گے اور اگر اوپر سے کھولیں گے تو پچاس روپے، ایسا اس لئے کرتے ہیں تاکہ اس کٹے میں دوسرا چاول اسی جیسا بھر کے اچھے پیسوں میں فروخت کیا جا سکے، عام طور پر دکاندار اوپر کی ڈبل سلائی سے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ کٹا اصل میل کا ہے یا اس میں کوئی اور چاول بھرا ہوا ہے، لیکن نیچے کی سلائی پر اتنا دھیان نہیں دیا جاتا، آیا ہمارا ان کٹوں کی سلائی کو نیچے سے کھول کر زیادہ پیسے میں فروخت کرنا کیسا ہے؟
جواب: چاول کے کٹے فروخت کرنا بذات خود جائز ہے، البتہ سوال میں جو تفصیل لکھی گئی ہے اس کے مطابق مشہور ملوں کے کٹے زائد قیمت پر اس لئے فروخت ہوتے ہیں کیونکہ ان میں چاول بھر کر ان ملوں کے نام سے فروخت کیا جاتا ہے، جس سے مقصد خریدار کو یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ یہ چاول اسی مل کا ہے، تاکہ زیادہ قیمت پر چاول فروخت کیا جا سکے، یہ سراسر دھوکہ ہے جو کہ ناجائز اور گناہ ہے۔ نیز اصل مالک کی اجازت کے بغیر اس کے نام اور ٹریڈ مارک کو استعمال کرنا بھی شرعاً درست نہیں ہے۔
لہٰذا اگر نیچے سے سلائی کھول کر کٹے اسی مقصد کے لئے خریدے جاتے ہوں کہ ان کے ذریعہ دھوکہ دے کر چاول فروخت کیے جائیں گے، اور کٹے بیچنے والے کو اس بات کا علم بھی ہو (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے) تو اس طرح کٹے فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے، البتہ اگر یہ بات یقینی نہ ہو کہ کٹے خریدنے والا ان کے ذریعہ دھوکہ دہی کرے گا تو کٹے فروخت کرنا جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدة: 2)
"وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ...الخ
احكام القرآن للجصاص: (296/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
وقوله تعالى: {ولا تعاونوا على الأثم والعدوان} نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى.
مصنف ابن أبي شيبة: (13/ 19، ط: دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع، الرياض)
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "(من) غشنا فليس منا".
الهندية: (416/5، ط: دار الفكر بيروت)
ولا بأس ببيع العصير ممن يتخذه خمرا في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال صاحباه: يكره، وقيل على قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - إنما لا يكره إذا باعه من ذمي بثمن لا يشتريه المسلم بذلك أما إذا وجد مسلما يشتريه بذلك الثمن يكره إذا باعه ممن يتخذه خمرا، وهو كما لو باع الكرم، وهو يعلم أن المشتري يتخذ العنب خمرا لا بأس به إذا كان قصده من البيع تحصيل الثمن، وإن كان قصده تحصيل الخمر يكره وغراسة الكرم على هذا إذا كان يغرس الكرم بنية تحصيل الخمر يكره، وإن كان لتحصيل العنب لا يكره، والأفضل أن لا يبيع العصير ممن يتخذه خمرا كذا في فتاوى قاضي خان والله أعلم.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (36/1، ط: دار الجيل)
لا يجوز لشخص أن يبيع مالا معيبا لشخص آخر بدون أن يذكر العيب الموجود في المال وأن إخفاء عيب المبيع عن المشتري إضرار به، وهو حرام وممنوع شرعا
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (96/1، ط: دار الجيل)
لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية (لا يجوز لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته) ....... كذلك ليس لأحد أن يدخل دار الآخر أو مزرعته المسيجة بدون إذنه؛ لأنه بدخوله الدار أو المزرعة يكون قد استعملها
کذا فی امداد الفتاویٰ: (133/3، ط: دار العلوم کراتشی)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی