سوال:
محترم مفتی صاحب! میں آن لائن گولڈ ٹریڈنگ میں دلچسپی رکھتا ہوں، اس میں اصل سونا میرے پاس physically موجود نہیں ہوتا، لیکن جیسے ہی میں خریداری کرتا ہوں، وہ میرے اکاؤنٹ میں قبضہ حکمی (constructive possession) کے طور پر reflect ہوتا ہے، میں اس کو آگے بیچنے یا dispose کرنے کا اختیار رکھتا ہوں، بروکر کی طرف سے transparency اور control موجود ہوتا ہے، کوئی interest (swap) نہیں لیا جاتا مطلب swap free اکاؤنٹ ہوتا ہے، نیت صرف price speculation نہیں بلکہ تجارتی نفع ہے، کیا یہ شرعی طور پر جائز تجارت کے زمرے میں آتی ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیراً
جواب: سونے کی خرید و فروخت شرعاً صرف اسی صورت میں جائز ہے جب خریداری کے وقت ہی (مجلسِ عقد) میں یا تو پوری رقم ادا کر دی جائے یا خریدا ہوا سونا فوراً خریدار کے قبضے میں آجائے، دونوں چیزیں ادھار نہیں ہوسکتیں۔
سونے کی آن لائن تجارت کے مروّجہ طریقہ کار میں عموماً نہ مکمل ادائیگی کی جاتی ہے اور نہ ہی سونا خریدار کے قبضے میں آتا ہے، بلکہ صرف اکاؤنٹ میں ایک عددی اندراج یا ’’reflection‘‘ دکھایا جاتا ہے، جو شرعاً قبضہ نہیں کہلاتا۔
واضح رہے کہ قبضہ حکمی (constructive possession) شرعاً اسی وقت معتبر ہوتا ہے، جب خریدار کو خریداری کے بعد سونے پر واقعی اختیار حاصل ہو، یعنی چاہے تو وہ سونا اپنی ملکیت سے نکلوا سکے، منتقل کر سکے یا اپنی مرضی سے استعمال کر سکے، اگر ایسا اختیار موجود نہ ہو تو وہ ’’شرعی قبضہ‘‘ نہیں کہلائے گا۔
نیز اکثر اوقات بروکر کے پاس اتنی مقدار میں حقیقی سونا موجود بھی نہیں ہوتا، لہذا سونے کی آن لائن ٹریڈنگ کا مروّجہ طریقہ شرعاً درست نہیں، اس سے اجتناب لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، رقم الحدیث: 1525، 1159/3، ط: دار إحياء التراث العربي ببيروت)
"عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم قال: من ابتاع طعامًا فلا یبعه حتی یستوفیه، قال ابن عباس: وأحسب کل شيء مثله"
شرح معاني الآثار: (رقم الحدیث: 5554، 51/4، ط: عالم الکتب)
عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الكالئ بالكالئ يعني: الدين بالدين.
رد المحتار: (180/5، ط: دار الفکر)
سئل الحانوتي عن بيع الذهب بالفلوس نسيئة. فأجاب: بأنه يجوز إذا قبض أحد البدلين لما في البزازية لو اشترى مائة فلس بدرهم يكفي التقابض من أحد الجانبين قال: ومثله ما لو باع فضة أو ذهبا بفلوس كما في البحر عن المحيط.
الھندیة: (224/3، ط: دار الفکر)
الفلوس بمنزلة الدراهم إذا جعلت ثمنا لا تتعين في العقد، وإن عينت ولا ينفسخ العقد بهلاكها كذا في الحاوي.... ولو باع تبر فضة بفلوس بغير أعيانها وتفرقا قبل أن يتقابضا فهو جائز، وإن لم يكن التبر عنده لم يجز كذا في المحيط.
بدائع الصنائع: (242/4، ط: زکریا)
ولا یشترط القبض بالبراجم؛ لأن معنی القبض ہو التمکن والتخلّي وارتفاع الموانع عرفًا وعادةً حقیقةً
کذا فی تبویب فتاوی جامعہ دارالعلوم کراچی: (رقم الفتوی: 93/2113)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی