سوال:
محترم و مکرم مفتی صاحب! ایک مسئلے کے متعلق شرعی راہنمائی مطلوب ہے:
ہم اپنے خاندان میں پانچ بھائی ہیں، ہم نے سنہ 1997ء میں اپنے ہی خاندان کی تین خواتین سے سونا قرض لیا تھا، اسی سونے کی رقم کے ذریعے ہم نے زمین خریدی تھی، اس وقت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ بعد میں وہ سونا یا اس کی قیمت واپس کر دی جائے گی۔ بعد ازاں سنہ 2008ء کو میں نے اپنی بیوی سے مزید سونا قرض لیا، جس کے ذریعے میں نے ایک دکان کھولی, اب ہم چاہتے ہیں کہ وہ قرض واپس کریں۔ اس ضمن میں سوالات یہ ہیں کہ:
1) کیا اب ہم پر 1997ء کے دور کے سونے کی مقدار کے مطابق سونا واپس کرنا لازم ہے یا اس وقت کے سونے کی قیمت کے اعتبار سے رقم دی جا سکتی ہے؟
2) اگر قیمت کے لحاظ سے واپس کرنا درست ہے تو کیا وہ قیمت اس وقت (1997ء اور 2008ء) کی ہوگی یا موجودہ (2025ء) کے حساب سے ہوگی؟
3) اگر موجودہ قیمت کے لحاظ سے واجب الادا بنے تو کیا ان خواتین کا حق پورا دیا جائے گا یا آدھا کیا جا سکتا ہے؟
شرعی اصولوں کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ ہم پر کس قدر ادائیگی واجب ہے اور ان کا یہ قرض آدھا کرنا یا کمی کرنا درست ہوگا یا نہیں؟
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے آمین
جواب: واضح رہے کہ قرض دار نے جس قدر اور جس معیار کا سونا بطور قرض لیا ہو، اس کے ذمّہ شرعاً لازم ہے کہ اس قدر اور اس معیار کا سونا قرض خواہ کو واپس کرے، اگرچہ سونے کی قیمت واپسی کے وقت پہلے سے بڑھ چکی ہو، لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں قرض داروں پر لازم ہے کہ انہوں نے 1997ء اور 2008ء میں جس قدر اور جس معیار کا سونا بطور قرض لیا تھا، اسی مقدار اور اسی معیار کا سونا خواتین کو واپس کریں، البتہ اگر خواتین سونے کے بجائے رقم لینے پر رضامند ہوں تو ادائیگی والے دن سونے کی جو قیمت مارکیٹ میں رائج ہو، اس کے مطابق سونے کی قیمت بھی ادا کی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (فصل في حكم البيع، 219/7،ط:دارالكتب العلمية)
الواجب على المستقرض مثل ما استقرض دينا في ذمته لا عينه فكان محتملا للاستبدال كسائر الديون، ولهذا اختص جوازه بما له مثل من المكيلات، والموزونات، والعدديات المتقاربة دل أن الواجب على المستقرض تسليم مثل ما استقرض لا تسليم عينه إلا أنه أقيم تسليم المثل فيه مقام تسليم العين.
الدر المختار: (840/3، ط: دار الفکر)
الديون تقضى بأمثالها.
رد المحتار: (باب الربا، مطلب في استقراض الدراھم عددا، 177/5 ،ط: دار الفکر)
فإذا استقرض مائة دينار من نوع فلا بد أن يوفي بدلها مائة من نوعها الموافق لها في الوزن أو يوفي بدلها وزنا لا عددا، وأما بدون ذلك فهو ربا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی