سوال:
عرض یہ ہے کہ میری ایک آن لائن اکیڈمی ہے، اکیڈمی میں جو بچے پڑھ رہے ہیں ان کے والدین کو بتانے کے لیے میں نے کچھ اہم قواعد و ضوابط مرتب کیے ہیں۔ وہ قواعد و ضوابط میں نے بچوں کے والدین کو بتانے ہیں تاکہ وہ قواعد و ضوابط باقاعدہ اکیڈمی کا حصہ بن جائیں، لیکن مجھے اندیشہ یہ ہے کہ قواعد و ضوابط کچھ طویل ہونے کی وجہ سے بچوں کے والدین وہ قواعد و ضوابط شاید بالکل یا مکمل طور پر نہیں پڑھیں گے اور مجھے اس پر کوئی جواب نہیں دیں گے تو کیا ان اہم قواعد و ضوابط کو اکیڈمی کا حصہ بنانے کے لیے میرے لیے اتنا کافی ہوگا کہ میں ان قواعد و ضوابط کا لنک بچوں کے والدین کو سینڈ کر دوں اور ساتھ میں انہیں ایک نوٹس میسج کی صورت میں لکھ دوں کہ "چونکہ آپ کا بچہ ہماری اکیڈمی میں پڑھتا ہے اس لیے آپ ان قواعد و ضوابط کے پابند ہوں گے۔"
سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح ان والدین کو قواعد و ضوابط کا لنک بھیجنے اور میسج نوٹس بھیجنے کی صورت میں وہ قواعد و ضوابط اکیڈمی کا حصہ بن جائیں گے اور وہ پیرنٹس ان قواعد و ضوابط کے پابند سمجھے جائیں گے؟
جواب: واضح رہے کہ آن لائن اکیڈمی میں فیس کے بدلے بچوں کو تعلیم دینا شرعاً عقدِ اجارہ کے حکم میں ہے، اجارہ کے عقد میں جب ایک مرتبہ عقد مکمل ہو جائے تو طرفین پر اس کی پاسداری لازم ہو جاتی ہے، اور کسی ایک فریق کے لیے اپنی طرف سے مدتِ عقد مکمل ہونے سے پہلے اس عقد میں تبدیلی کرنا یا شرائط بڑھانا درست نہیں ہوتا ہے، لہٰذا اگر آپ کے قواعد و ضوابط ایسی باتوں پر مشتمل ہیں جن سے سابقہ عقدِ اجارہ میں تبدیلی واقع ہو رہی ہو تو آپ کے لیے یکطرفہ طور پر قواعد و ضوابط کے نام پر عقد اجارہ میں تبدیلی کرنا درست نہیں ہوگا۔
اس صورت میں آپ کو چاہیے سابقہ عقد اجارہ یا تو ختم کردیں یا اُس کی مدت ختم ہونے کا انتظار کریں، اس کے بعد از سرِ نو نیا عقدکریں اور ان میں مذکورہ شرائط شامل کرلیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
در المختار:(46/5، ط: دار الفکر)
(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) (تَفْسُدُ الْإِجَارَةُ بِالشُّرُوطِ الْمُخَالِفَةِ لِمُقْتَضَى الْعَقْدِ فَكُلُّ مَا أَفْسَدَ الْبَيْعَ) مِمَّا مَرَّ (يُفْسِدُهَا) كَجَهَالَةِ مَأْجُورٍ أَوْ أُجْرَةٍ.
رد المحتار: (5/6، ط: دارالفکر
(قَوْلُهُ أَفَادَ أَنَّ رُكْنَهَا الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ) أَيْ بِقَوْلِهِ هِيَ تَمْلِيكٌ أَوْ بِقَوْلِهِ وَتَنْعَقِدُ تَأَمَّلْ، ثُمَّ الْكَلَامُ فِيهِمَا وَفِي صِفَتِهِمَا كَالْكَلَامِ فِيهِمَا فِي الْبَيْعِ بَدَائِعُ: وَفِي تَكْمِلَةِ الطُّورِيِّ عَنْ التتارخانية، وَتَنْعَقِدُ أَيْضًا بِغَيْرِ لَفْظٍ، كَمَا لَوْ اسْتَأْجَرَ دَارًا سَنَةً فَلَمَّا انْقَضَتْ الْمُدَّةُ قَالَ رَبُّهَا لِلْمُسْتَأْجِرِ فَرِّغْهَا لِي الْيَوْمَ وَإِلَّا فَعَلَيْكَ كُلُّ شَهْرٍ بِأَلْفٍ فَجَعَلَ بِقَدْرِ مَا يَنْقُلُ مَتَاعَهُ بِأُجْرَةِ الْمِثْلِ، فَإِنْ سَكَنَ شَهْرًا فَهِيَ بِمَا قَالَ.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی