سوال:
الحمدللہ! آپ کے بتائے ہوئے مسائل کے حل سے بہت استفادہ حاصل ہوتا ہے۔
ایک صاحب جن کا اپنا کاروبار ہے۔ وہ تقریباً ہر ماہ کسی نہ کسی سے ادھار لیتے ہیں اور عموماً دیے ہوئے وقت پر واپس بھی نہیں کر پاتے ہیں، کم از کم دو سے تین دفعہ مانگنے پر واپس ملتا ہے۔ کئی سالوں سے یہ سلسلہ ہے، پچھلے دنوں ایک بیان کی صورت میں انہوں نے قرض دینے کی بہت فضیلت بتائی ہے۔ اس بارے میں آپ کی رہنمائی درکار ہے، کیا شریعت کی رو سے ایسے شخص کو ادھار دینا چاہیے؟ شکریہ
جواب: واضح رہے کہ کسی ضرورت مند کو قرض دینا ایک مستحب عمل ہے اور بلا شبہ قرض دینے کی احادیث مبارکہ میں بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، البتہ اگر کسی شخص کے بارے میں یہ علم ہو کہ وہ قرض واپس نہیں کرے گا یا ادائیگی میں ٹال مٹول کرے گا تو ایسے شخص کو قرض نہ دینے میں شرعاً کوئی گناہ اور حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تفسير ابن كثير: (2/ 175،ط: رشيدية)
قَوْله تَعَالَى: {وَلا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ}۔۔۔وهو ما إذا أحاطت الديون برجل وضاق ماله عن وفائها، فإذا سأل الغرماء الحاكم الحجر عليه، حجر عليه.
الفقه الاسلامی وأدلته : (4/ 510،ط:رشیدیہ)
وهو مندوب إليه في حق المقرض، مباح للمقترض، للأحاديث السابقة. ولما روى أبو هريرة الله أن النبي ﷺ قال : من نفس عن مسلم كربة من كرب الدنيا ، نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة، ومن يسر على معسر يسر الله عليه في الدنيا والآخرة، والله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی