سوال:
مفتی صاحب! اگر کوئی شخص مویشی فارم میں اس طرح کاروبار کرے کہ ایک جانور کی اصل قیمت چھ لاکھ روپے ہے، وہ اگر نقد سودا کرے تو چھ لاکھ لے لے، لیکن اگر کوئی شخص اسی جانور کو دو یا تین مہینے کی اُدھار پر یہ کہہ کر خریدے کہ میں پیسے تین مہینے بعد دوں گا تو وہی چھ لاکھ والا جانور اُسے دس یا بارہ لاکھ روپے میں دے دے تو کیا یہ صورت جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ ایک چیز نقد کی صورت میں کم قیمت پر اور ادھار پر لینے کی صورت میں زیادہ قیمت پر فروخت کرنا جائز ہے، یہ معاملہ سود کے زمرے میں نہیں آتا، البتہ بیچتے وقت نقد یا ادھار میں سے کوئی ایک صورت متعین کرنا اور باہمی رضامندی سے قیمت طے کرنا شرعاً ضروری ہے، نیز طے شدہ مدت میں ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے جرمانہ نہ لیا جائے۔
لہذا ذکر کردہ صورت میں اگر اس طرح معاملہ کیا جارہا ہو تو مذکورہ معاملہ کرنا شرعاً جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح المجلة: (المادۃ: 245- 246)
البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح … یلزم أن تکون المدۃ معلومۃ في البیع بالتأجیل والتقسیط الخ
المبسوط للسرخسی: (13/8، ط: دار المعرفة)
وإذا عقد العقد علی أنه إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فهو فاسد، وهذا إذا افترقا علی هذا، فإن کان یتراضیان بینهما ولم یتفرقا، حتی قاطَعه علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیه جاز
بحوث فی قضایا فقهیة معاصرة: (12/1، ط: دار العلوم كراتشي)
أما الأئمة الأربعة وجمهور الفقهاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنه بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی