سوال:
میں آپ کی خدمت میں ایک نہایت اہم اور نازک مسئلہ پیش کرنا چاہتا ہوں، جس کے بارے میں شرعی رہنمائی درکار ہے۔ اُمید ہے کہ آپ مکمل تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے مسئلے کا شرعی حکم بیان فرمائیں گے۔
❖ مسئلہ کی نوعیت:
میری شادی کچھ عرصہ قبل ہوئی، لیکن گھریلو مسائل اور زوجہ کے رویے کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ (mental stress) اور تکلیف دہ حالات کا سامنا رہا۔ اس دوران مجھے مستقل طور پرذہنی اذیت (mental torture)، ازدواجی نافرمانی اور والدین کی توہین و بے ادبی جیسے واقعات پیش آئے۔ ان حالات میں میرا ذہنی دباؤ اس حد تک بڑھ گیا کہ بعض مواقع پر مجھے یہ شعور نہیں ہوتا تھا کہ میرے سامنے کون ہے؟ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ بعض اوقات غصے کی شدت سے ذہن ماؤف ہو جاتا اور بعد میں یاد بھی نہ رہتا کہ میں نے کیا الفاظ کہے؟
یہ کیفیت ایسی ہوتی تھی کہ مجھے اپنی باتوں اور جذبات پر کوئی کنٹرول نہ رہتا اور کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا جیسے میں اپنے آپ میں نہ ہوں۔
ان ہی ذہنی دباؤ کی حالتوں میں مختلف مواقع پرکبھی میں نے کہا: "میں تمہیں طلاق دوں گا" (جو کہ صرف مستقبل کی خبر تھی، کوئی فوری یا قطعی طلاق کا جملہ نہیں تھا) کبھی غصے یا شدید دباؤ میں طلاق کے واضح الفاظ بھی کہہ دیے، لیکن اُن مواقع پر نہ میرا ذہن قابو میں تھا، نہ مجھے علم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، بعد میں ہوش میں آنے کے بعد بہت پچھتاوا ہوا اور سمجھ آیا کہ میں نے کس قدر خطرناک الفاظ ادا کر دیے۔
میری نیت کبھی بیوی کو فوری طلاق دینے کی نہیں تھی، بلکہ شدید ذہنی پریشانی اور وقتی جذبات میں یہ باتیں زبان سے نکلیں۔ نہ مجھے شرعی احکام کا علم تھا اور نہ اس وقت یہ شعور تھا کہ میری باتوں کا نتیجہ کیا ہوگا؟
❖ سوال برائے فتویٰ:
کیا ایسی حالت میں دی گئی طلاق (جبکہ انسان کو خود شعور نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے) واقع ہو جاتی ہے؟
اگر ایسے مختلف مواقع پر یہ باتیں ہوئیں تو کیا تین طلاقیں شمار ہوں گی؟
اس کیفیت کے پیش نظر، کیا نکاح باقی ہے یا ختم ہو چکا ہے؟
میں اس معاملے میں سخت ذہنی اذیت کا شکار ہوں اور شرعی رہنمائی کا طالب ہوں تاکہ کوئی فیصلہ جذباتی نہیں بلکہ شریعت کی روشنی میں کیا جا سکے۔ آپ کی رہنمائی کا منتظر ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ والسلام
جواب: واضح رہے کہ مستقبل کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اسی طرح طلاق دیتے وقت اگر شوہر کی حالت شدید ذہنی دباؤ یا سخت غصّے کی وجہ سے مجنون کی طرح ہوجائے یعنی وہ اس قدر حواس باختہ اور مدہوش ہوجائے کہ وہ اپنی عقل اور زبان پر قابو نہ رکھتا ہو اور بلا اختیار اور بلا قصد اس کی زبان سے الفاظِ طلاق نکل جائے تو ایسی صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، البتہ اگر وہ مجنون اور مدہوشی کی کیفیت میں نہ ہو، بلکہ اسے اپنے حواس پر کسی قدر قابو ہو یعنی کچھ باتیں یاد ہوں اور کچھ نہیں تو اگرچہ وہ شدید غصّہ کی حالت میں ہو تو ایسے شخص کی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں جن مواقع میں طلاق دیتے وقت اگر واقعتاً شوہر کی حالت مذکورہ بالا کیفیت کے مطابق مجنون اور مدہوش کی طرح تھی تو اس کیفیت میں اس کی طرف سے دی گئی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، البتہ جن مواقع پر شوہر کی کیفیت مجنون اور مدہوش کی طرح نہ تھی تو اگرچہ وہ شدید غصّہ کی حالت میں ہو تو ایسی صورت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (244/3 ،ط: دار الفکر)
قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه. ملخصا ..... فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل
اعلاء السنن: (180/11، ط: ادارۃ القرآن)
والمراد الغضب الذي یحصل به الدھش وزوال العقل فإن قلیل الغضب لایخلو الطلاق عنہ إلانادراً، وقد قلنا بعدم وقوع الطلاق في مثل ھذا الغضب قال الزیلعی: قال فی التنقیح: وقد فسرہ أحمد أیضًا بالغضب۔ قال شیخنا : والصواب أنہ یعُمّ الإکراہ والغضب والجنون وکل أمرٍ ا نغلق علی صاحبہ عِلمُه وقصدہ، مأخوذ من غلق الباب.
امداد الاحکام: (560/2)
امداد المفتین جامع: (231/9، ادارۃ المعارف)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی