resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: بچے کی نگہداشت کی وجہ سے ماں کے لیے حج کی ادائیگی میں تاخیر کرنا اور شوہر کا بیوی کو محرم کے ساتھ حج پر جانے سے منع کرنے کا حکم (32347-No)

سوال: میں تین بچوں کی ماں ہوں۔ بچوں کی عمر سات سال، پانچ سال، تین سال ہے۔ مجھ پر کئی سالوں سے حج فرض ہو چکا ہے۔ حج پالیسی کے تحت چھوٹے بچوں کو حج پر لے جانے کی اجازت نہیں، اور بچوں کو میرے اور میرے شوہر کے علاوہ میری ساس یا میری شادی شدہ بہن یا دیگر رشتے دار نہیں سمبھال سکتے۔
سوال: کیا میں جب تک میرے بچے بڑے نہ ہو جائیں تب تک حج پر جانا موخر کر سکتی ہوں؟ شریعت کا فرض رکن تاخیر کرنے پر میں گناہ گار تو نہیں ہوں گی؟ جب تک حج ادا نہ کر لوں تب تک اللہ تعالی مجھ سے اس بات پر ناراض رہیں گے؟ اس دوران اگر میری موت واقع ہو جائے تو کیا مجھ سے حج نہ کرنے کا سوال ہوگا اور مجھے سزا دی جائے گی؟
میں بچوں کو اپنے شوہر کے پاس چھوڑ کر اپنے بھائی، ماموں یا چاچا کے ساتھ حج پر جانا چاہتی ہوں، لیکن میرے شوہر کہتے ہیں کہ میں نے حج پر ساتھ جانا ہے، جبکہ میرے شوہر اپنا فرض حج ادا کر چکے ہوئے ہیں۔ میرے شوہر مجھے بار بار کہہ رہے ہیں کہ ”میں نے حج پر تمہارے ساتھ جانا ہے۔ میں نے تمہیں کسی اور کے ساتھ حج پر جانے نہیں دینا۔“ جبکہ میں نے اپنے شوہر کو بہت سمجھایا ہے کہ مجھ پر حج بہت دیر سے فرض ہو چکا ہوا ہے اور آپ اپنا فرض حج ادا کر چکے ہیں اور بچوں کو صرف آپ ہی سنبھال سکتے ہیں لیکن بہت سمجھانے کے باوجود میرے شوہر مجھے حج پر جانے کی مجھے اجازت نہیں دے رہے۔
سوال: کیا میں شوہر کے کہنے پر حج موخر کر دوں؟ کیا میرے شوہر مجھے فرض حج کرنے پر جبکہ میں اپنے محرم رشتے دار کے ساتھ جانا چاہتی ہوں، مجھے روک سکتے ہیں؟ کیا میرے شوہر کا مجھے روکنا جائز ہے؟ کیا میں شوہر کے روکنے کے باوجود اپنے محرم رشتے دار کے ساتھ حج پر جا سکتی ہوں یا شوہر کی بات ماننا لازم ہے؟

جواب: واضح رہے کہ حج فرض ہونے کے بعد اس کی ادائیگی میں بلا شرعی عذر تاخیر کرنا گناہ ہے، البتہ اگر کوئی بچہ اس قدر چھوٹا ہو کہ ماں کی نگہداشت کا محتاج ہو اور ماں کے حج پر جانے سے اسے ضرر لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں عورت اس بچے کی وجہ سے حج پر جانے میں تاخیر کرسکتی ہے اور اس تاخیر پر اسے گناہ نہ ہوگا۔
تاہم اگر بچہ ماں کی نگہداشت کا محتاج نہ ہو اور ماں کے بغیر کسی اور ذریعے سے اس کی نگہداشت ممکن ہو تو عورت شوہر یا کسی معتمد محرم کے ساتھ حج پر جاسکتی ہے۔ ایسی صورت میں معتمد محرم ساتھ ہونے کے باوجود شوہر کا بیوی کو فرض حج سے روکنا جائز نہیں ہے اور ایسی صورت میں بیوی پر بھی شرعاً شوہر کی اطاعت لازم نہیں ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

غنية الناسك: (ص: 12، ط: إدارة القرآن والعلوم الاسلامية)
وفى الكبير عن التتمة: من عليه الحج ومرضت زوجته لا يكون عذرا فى التخلف عن الحج ومرض الوالد والوالدة يكون عذرا إذا احتاجا إليه والولد الصغير المحتاج إليه عذر في التخلف مريضا كان أو لم يكن.

اعلاء السنن: (کتاب الحج ، 18/10، ط: الوحیدیہ)
قوله: عن أبي أمامة إلخ : قلت فيه دلالة على أن التأخير في الحج لأجل المرض والمراد به ما يمنع عن السفر والذهاب إلى بيت الله - أو لأجل الحاجة الظاهرةكحضانة الولد الصغير المحتاج إليه - أو تعهد الوالد أو الوالدة المريضين المحتاجين الى خدمته، أو لأجل المشقة الظاهرة ... لا يوجب الوعيد، ويجوز لمن ابتلي بمثل هذه الأعذار أن يؤخر الحج إلى زوال العذر.

معلم الحجاج : (ص: 84، ط: البشری)

فتاوی عثمانی: (203/2، ط: مکتبہ معارف القرآن)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Hajj (Pilgrimage) & Umrah