resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: احرام کی نیت کرتے ہوئے اس طرح کی شرط "جہاں پریشانی آئی تو احرام کھول دوں گا" (32353-No)

سوال: میرے ماموں عمرے ہر جارہے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ میں احرام باندھتے ہوئے یہ نیت کروں گا کہ: "جہاں پریشانی آئی تو احرام کھول دوں گا"۔ ماموں کہہ رہے ہیں کہ ایسی نیت کرنے سے آپ پر عمرہ لازم نہیں ہوتا ہے، ایسی نیت کرنے کے بعد اگر آپ میقات سے پہلے یا بعد میں کسی وجہ (بیماری، پاسپورٹ یا ویزہ ایشو وغیرہ) سے عمرہ سے روک دیے جاؤ تو آپ احرام کی پابندیوں سے نکل سکتے ہیں اور آپ پر عمرہ یا کوئی دم وغیرہ لازم نہیں آتا ہے۔ ماموں نے کسی ویلوگ میں ایسا دیکھا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ترمذی کی حدیث میں آیا ہے کہ ایک صحابیہؓ نے احرام میں شرط لگانے کا پوچھا تو آپ ﷺ نے اس کی اجازت دی۔ براہ کرم آپ صحیح مسئلے کی طرف رہنمائی فرمادیں۔

جواب: واضح رہے کہ فقہاء احنافؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے قولِ جدید کے مطابق احرام کی نیت کرتے ہوئے اس طرح شرط لگانا "جہاں پریشانی آئی تو احرام کھول دوں گا" معتبر نہیں ہے، چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ حج میں شرط لگانے سے انکار کرتے تھے اور کہتے تھے: کیا تمہارے لیے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کافی نہیں ہے۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر:942)
لہذا اگر کسی نے احرام باندھتے ہوئے اس طرح کی نیت کی ہو اور پھر وہ کسی وجہ سے عمرہ کرنے سے روک دیا جائے تو وہ جب تک ایک بکری یا دنبہ حدودِ حرم میں ذبح نہ کروالے، تب تک وہ احرام کی پابندیوں میں رہے گا، حدودِ حرم میں جانور کی قربانی کے بعد اس کے لئے احرام کھولنا جائز ہوگا اور اس کے ذمّہ اس فوت شدہ عمرہ کے بدلے ایک عمرہ کی قضاء لازم ہوگی۔
جہاں تک سوال میں ذکر کردہ حدیث کا تعلّق ہے تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ اجازت حضرت ضباعہؓ بنت زبیرؓ کے ساتھ خاص تھی یا یہ ان کی تسلّی اور اطمینانِ قلب کے لیے تھی، اسی لیے احناف کے نزدیک بھی اطمینانِ قلب کے لیے اشتراط کی گنجائش ہے، لیکن شرط لگانے کی صورت میں بھی حکم وہی رہے گا جو اوپر مذکور ہوچکا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

‌صحيح البخاري: (کِتَابُ المُحْصَرِ، بَابُ الإِحْصَارِ فِي الحَجِّ، رقم الحدیث:1810، ط: دار طوق النجاة)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ قَالَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ أَلَيْسَ حَسْبُكُمْ سُنَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ حُبِسَ أَحَدُكُمْ عَنْ الْحَجِّ طَافَ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ حَلَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى يَحُجَّ عَامًا قَابِلًا فَيُهْدِي أَوْ يَصُومُ إِنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي سَالِمٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَهُ

سنن الترمذی: (كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب منه، رقم الحدیث:942، ط: دارالغرب الاسلامي)
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا عبد الله بن المبارك، اخبرني معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، انه كان ينكر الاشتراط في الحج، ويقول: " اليس حسبكم سنة نبيكم صلى الله عليه وسلم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.

عمدة القاري شرح صحيح البخاري: (10/ 147)
وذهب ‌بعض ‌التابعين ومالك وأبو حنيفة إلى أنه: لا يصح الاشتراط ، وحملوا الحديث على أنه قضية عين، وأن ذلك مخصوص بضباعة . وقال الترمذي: ولم ير بعض أهل العلم الاشتراط في الحج. وقالوا: إن اشترط فليس له أن يخرج من إحرامه فيرونه كمن لم يشترط . قلت: حكى الخطابي ثم الروياني من الشافعية الخصوص بضباعة.

فتح الملھم: (430/5، باب جواز اشتراط المحرم التحلل بعذر المرض ونحوہ، مکتبه دارالعلوم کراچی)
وقال شیخنا المحمودي قدس الله روحه: معنی إنکار الاشتراط عند الحنفیة انه لا تأثیر له، فإن الإحصار عندهم یتحقق بالمرض ایضا ولو لم یشترط ومع ذلک لا نسلم ان الاشتراط عبث، فان العبث مالا فائدۃ فیه اصلا والفائدۃ لا تنحصر فی تغییر الاحکام فیحتمل ان یکون الارشاد الی الاشتراط لتسلیة نفسھا وتسکین قلبھا وازالة ما کان یختلج فی صدرھا من عروض احوال تمنعھا عن اتمام ما احرمت به۔۔۔۔الخ

الھدایة: (312/1، ط: مکتبہ رحمانیہ)
إذا احصر المحرم بعدو او اصابه مرض، فمنعه من المضی جاز له التحلل، و إذا جاز له التحلل، یقال له ابعث شاۃ تذبح فی الحرم و واعد من تبعثه لیوم بعینه یذبح فیه ثم تحلل۔

ارشاد الساری: (فصل فی بعث الھدی، ص: 587، ط: مکتبہ امدادیہ)
اذا احصر المحرم بحجة او عمرۃ واراد التحلل یجب علیه ان یبعث الھدی وھو شاۃ وما فوقھا۔۔۔ او یبعث ثمن الھدی لیشتری به الھدی، ویامر بذلک فیذبح عنه فی الحرم۔

المجموع شرح المهذب: (8/ 310 ط المنيرية)
أما) إذا شرط في احرامه أنه إذا مرض تحلل فقد نص الشافعي في القديم على صحة الشرط لحديث ضباعة ونص في كتاب المناسك من الجديد على أنه لا يتحلل وروى الشافعي حديث ضباعة مرسلا فقال (عن عروة بن عروة بن الزبير أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لضباعة) الحديث قال الشافعي لو ثبت حديث عروة لم أعده إلى غيره لأنه لا يحل عندي خلاف ما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم
قال البيهقي وثبت هذا الحديث من أوجه عن النبي صلى الله عليه وسلم ثم روى الأحاديث الصحيحة السابقة فيه هذه نصوص الشافعي

درس ترمذی: (196/3، مکتبہ دارالعلوم کراچی)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Hajj (Pilgrimage) & Umrah