سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
ایک صاحب کی جانب سے دو مختلف نوعیت کے سوالات موصول ہوئے ہیں، لیکن دونوں کا تعلق کریڈٹ کارڈ حاصل کرنے کے بدلے دی جانے والی رقم یا انعام سے ہے۔ براہِ کرم ان دونوں صورتوں کی شرعی حیثیت سے مطلع فرما دیں۔
پہلی صورت:
کسی بینک کے مارکیٹنگ اسٹاف کی جانب سے یہ پیشکش کی جاتی ہے کہ اگر آپ ان کے بینک کا کریڈٹ کارڈ بنوا لیں تو وہ آپ کو کچھ رقم بطور انعام دیں گے۔ یہ پیشکش بینک کی طرف سے باقاعدہ نہیں ہوتی بلکہ مارکیٹنگ کرنے والے فرد کی طرف سے ذاتی ترغیب ہوتی ہے، تاکہ وہ اپنے ٹارگٹ پورے کر سکے۔ اس رقم کو حاصل کرنے کے لیے کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرنا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ صرف کارڈ بنوانا کافی ہوتا ہے۔ عام طور پر ہوتا یوں ہے کہ کوئی شخص کارڈ بنوا لیتا ہے، رقم مارکیٹنگ والے سے لے لیتا ہے، اور کچھ عرصے بعد کریڈٹ کارڈ استعمال کیے بغیر ہی بند کروا دیتا ہے، اس پورے عمل کا مقصد محض انعامی رقم حاصل کرنا ہوتا ہے، نہ کہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال۔ اس ضمن میں سوال یہ کہ ایسی صورت میں مارکیٹنگ کرنے والے فرد سے حاصل کی جانے والی رقم شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
دوسری صورت:
بینک خود باقاعدہ طور پر یہ پیشکش کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص ان کا کریڈٹ کارڈ بنوائے اور اس سے کچھ مخصوص رقم (جو پہلے سے طے ہوتی ہے) ایک مقرّرہ مدت کے اندر خرچ کرے تو وہ اس شخص کو کچھ رقم یا کوئی چیز (مثلاً: واؤچر، تحفہ، یا اشیاء) بطور انعام دے گا۔ یہ پیشکش باقاعدہ بینک کی مارکیٹنگ اسکیم کے تحت ہوتی ہے۔ یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر کارڈ کے ذریعے کی گئی ادائیگی، مقررہ وقت (بلنگ سائیکل ختم ہونے سے پہلے) میں پوری واپس کر دی جائے تو کوئی سود لاگو نہیں ہوتا۔ یعنی سود سے مکمل بچا جا سکتا ہے۔انعامی رقم یا تحفہ ملنے کے بعد کریڈٹ کارڈ بغیر کوئی فیس یا چارجز دیے بند بھی کروایا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں بھی شخص کا مقصد صرف انعام حاصل کرنا ہوتا ہے، اور وہ کریڈٹ کارڈ کو لمبے عرصے کے لیے استعمال میں نہیں لاتا۔ اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں بینک کی جانب سے دی جانے والی انعامی رقم یا چیز شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ کریڈٹ کارڈ (Credit Card) بنوانے کے مروّجہ طریق کار میں سودی معاہدہ شامل ہوتا ہے، بایں طور پر کہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ خریداری کی صورت میں بر وقت ادائیگی نہ کرنے پر بینک کارڈ ہولڈر سے مدت ادائیگی کے مقابلے میں کچھ اضافی رقم بھی لیتا ہے، جو شرعاً سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔
چونکہ کریڈٹ کارڈ کے حصول کیلئے سودی معاہدہ کرنا پڑتا ہے، اور بعض صورتوں میں عملاً سود ادا بھی کرنا پڑتا ہے، جبکہ سودی معاہدہ کرنا بذات خود ایک ناجائز عمل ہے، اور کارڈ بنوانے کے عوض انعام حاصل کرنا کوئی ایسی مجبوری نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے سود کی ادائیگی کے معاہدے کی اجازت دی جاسکے۔
لہذا محض انعام حاصل کرنے کی غرض سے مروّجہ کریڈٹ کارڈ بنوانا/ سودی معاہدہ کرنا شرعاً درست نہیں، اس سے اجتناب لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المختار: 166/5، ط. سعید)
[مطلب كل قرض جر نفعا حرام]
(قوله: كل قرض جر نفعا حرام) أي اذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرةوإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخيّ لا بأس به ويأتي تمامه.
الاشباہ والنظائر :(ص 132، ط. دارالکتب العلمیة)
القاعدة الرابعة عشرة: ما حرم أخذه حرم إعطاؤه ..ويقرب من هذا قاعدة: ما حرم فعله حرم طلبه.
المعايير الشرعیة للمؤسسات المالية الاسلامية:
(1 / 11) بطاقة الائتمان المتجدد :(Credit Card) خصائص هذه البطاقة:
( أ ) هذه البطاقة أداة ائتمان في حدود سقف متجدد على فترات يحددها مصدر البطاقة، وهي أداة وفاء أيضًا......
( ج ) في حالة الشراء للسلع أو الحصول على الخدمات يمنح حاملها فترة سماح يسدد خلالها المستحق عليه بدون فوائد، كما تسمح له بتأجيل السداد خلال فترة محددة مع ترتب فوائد عليه. أما في حالة السحب النقدي فلا يمنح حاملها فترة سماح.
( د ) ينطبق على هذه البطاقة ما جاء في البند 2/2،۔۔۔۔۔۔ولا يجوز للمؤسسات إصدار بطاقات الائتمان ذات الدين المتجدد الذي يسدده حامل البطاقة على أقساط آجلة بفوائد ربوية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی