resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: قرض کی رقم کی بدلے بائیک لینا (32369-No)

سوال: مفتی صاحب! سوال یہ ہے کہ میں نے اپنے دوست کو 70 ہزار روپے قرض دیے تھے، اب وہ پیسے کے بدلے تقریباً 75 ہزار روپے والی ایک بائیک دینا چاہ رہا ہے تو کیا میرے لیے روپے کے بجائے وہ بائیک لینا جائز ہے؟

جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر مقروض اپنی مرضی سے قرض کے بدلے بائیک دے رہا ہے اور یہ پہلے سے مشروط نہیں تھا تو اس صورت میں آپ کے لیے اپنی قرض کی رقم کے بدلے بائیک لینا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدرالمختار: (152/5، ط: دارالفکر)
"(وجاز) (التصرف في الثمن) بهبة أو بيع أو غيرهما لو عينا أي مشارا إليه ولو دينا فالتصرف فيه تمليك ممن عليه الدين ولو بعوض ولا يجوز من غيره ابن مالك (قبل قبضه) سواء (تعين بالتعيين)

رد المحتار: (152/5، ط: دارالفکر)
(قوله: فالتصرف فيه تمليك ممن عليه الدين) في بعض النسخ: تمليكه، وهي الموافقة لقول ابن ملك: فالتصرف فيه هو تمليكه إلخ أي أن التصرف فيه الجائز هو كذا. (قوله: ولو بعوض) كأن اشترى البائع من المشتري شيئا بالثمن الذي له عليه أو استأجر به عبدا أو دارا للمشتري، ومثال التمليك بغير عوض هبته ووصيته له نهر، فإذا وهب منه الثمن ملكه بمجرد الهبة لعدم احتياجه إلى القبض، وكذا الصدقة ط عن أبي السعود.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Loan, Interest, Gambling & Insurance