سوال:
والدین، چاچو یا بھائیوں کا اپنے سے عمر میں چھوٹے عالم بھائی، بیٹے، بھتیجے وغیرہ کے لئے کھڑے ہونا یا والدین سے عالم بیٹے کا راستہ میں آگے چلنا یا بڑے بھائی سے آگے چلنا کیسا ہے؟ ان کا یہ کہنا ہے کہ آپ ہماری خدمت نہ کریں آپ ہمیں گنہگار کرتے ہو۔ تفصیل سے بیان فرمائیں۔
جواب: والدین، چچا یا بڑے بھائی اگر علم کے ادب میں اپنی مرضی سے کھڑے ہونا چاہیں یا "عالم بیٹے اور بھائی" کو آگے چلنے پر اصرار کریں تو ان کی بات ماننے میں کوئی حرج نہیں، اس سے عمر میں چھوٹے "عالم" صاحب گناہ گار نہ ہوں گے، اسی طرح اگر وہ کہیں کہ "ہماری خدمت نہ کرو" تو ان کی بات مان لینا بہتر ہے، کیوں کہ اصل ادب ان کو راحت پہنچانا ہے، جس میں ان کو راحت ہو اسی کام کو کرنا چاہیے۔
تاہم کسی کے عالم ہوجانے سے اس کے والدین یا بڑوں کے حقوق کم یا ختم نہیں ہوتے، مذکورہ عالم دین کو چاہیے کہ اللہ کی رضا کی خاطر دعاؤں کے ساتھ ان کے حقوق ادا کرنے اور خدمت کرنے کی جو کوشش ممکن ہو اور بڑوں کی خوشی کا باعث ہو وہ کرتا رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (الإسراء، الآية: ٢٤)
﴿ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ●﴾
مسند أحمد: (11/ 529، رقم الحديث: 6937، ط: الرسالة)
حدثنا يزيد، أخبرنا محمد بن إسحاق، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نتف الشيب، وقال: " هو نور المؤمن "، وقال: " ما شاب رجل في الإسلام شيبة، إلا رفعه الله بها درجة، ومحيت عنه بها سيئة، وكتبت له بها حسنة ".
وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليس منا من لم يوقر كبيرنا، ويرحم صغيرنا.»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی