سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک شخص غلام قادر جس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی، اکرام ،اکرم، اوراسد۔ اسد (جو شادی شدہ تھا اور اس کی ایک بیٹی فاطمہ تھی) کا اپنے والد غلام قادر سے پہلے انتقال ہو گیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اسد کی بیٹی فاطمہ اپنے دادا کی وراثت کی حقدار ہو گی؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اسد کی اہلیہ کا بھی انتقال ہو گیا ہے اور اس کے ورثاء میں ایک بھائی، دو بہنیں اور ایک بیٹی ہے۔ ان میں وراثت کس تناسب سے تقسیم ہو گی؟
جواب: (1) صورت مسئولہ میں اسد کی بیٹی کو دادا کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا۔
(2) صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے جائز وصیت کی ہو، تو ایک تہائی میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد کو آٹھ (8) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیٹی کو چار (4)، بھائی کو دو (2) اور ہر ایک بہن کو ایک ایک (1) حصہ ملے گا۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے، تو
بیٹی کو پچاس %50 فیصد
بھائی کو پچیس %25 فیصد
بہن کو ساڑھے بارہ 12.5 فیصد
بہن کو ساڑھے بارہ 12.5 فیصد
ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (باب میراث ابن الابن، 151/8، ط: دار طوق النجاہ)
"وقال زيد: «ولد الأبناء بمنزلة الولد، إذا لم يكن دونهم ولد ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون، ويحجبون كما يحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن»".
البحر الرائق: (کتاب الفرائض، 346/9، ط: رشیدیہ)
وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث فنقول: هذا فصل اختلف المشايخ فيه، قال مشايخ العراق: الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث، وقال مشايخ بلخ: الإرث يثبت بعد موت المورث".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی