سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میرے ایک دوست نے وراثت کا گھر دو کروڑ نو لاکھ میں بیچا ہے، یہ رقم دو بھائی اور ایک بہن میں کس طرح تقسیم کریں؟ اس پرانے گھر میں ایک فلور مکمل ایک بھائی کے پیسوں سے تعمیر ہوا تھا لیکن اس وقت وراثت کے حوالے سے کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی تو اس کا کیا معاملہ ہوگا؟ اس کی بھی رہنمائی فرمادیں۔ جزاک اللہ
جواب: واضح رہے کہ اگر مرحوم کے یہی ورثاء ہوں جو سوال میں مذکور ہیں اور ان کے علاوہ کوئی وارث نہ ہو تو مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل رقم کو پانچ (5) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو دو (2) حصے اور بہن کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
اس تقسیم کے اعتبار سے دو کروڑ نو لاکھ (20,900,000) روپوں میں سے دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک بھائی کو تیراسی لاکھ ساٹھ ہزار (83,60,000) روپے اور بہن کو اکتالیس لاکھ اسی ہزار (41,80,000) روپے ملیں گے۔
نوٹ: مشترکہ زمین میں تعمیر کرنے والے بھائی کو تعمیر پر لگائی ہوئی رقم ملے گی یا نہیں؟ اس کے جواب کے لیے درج ذیل پر جواب ملاحظہ فرمائیں:
https://alikhlasonline.com/detail.aspx?id=31180
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 176)
وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ... الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی