resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: گاڑیوں، موبائل، جوتوں یا انڈوں کا آپس میں خرید وفروخت کا معاملہ کمی بیشی کے ساتھ ادھار کرنے کا حکم (32396-No)

سوال: السلام عليكم! اگر کوئی ایک گاڑی کے عوض دو گاڑیاں یا ایک موبائل کےعوض دو موبائل یا ایک انڈے کے عوض دو انڈے یا ایک جوتے کے عوض دو جوتے خریدے اور یہ خریدنا قرض ہو تو کیا یہ جائز ہوگا؟ کیا عددی اشیاء میں فقہ حنفی کے نزدیک سود ہے؟

جواب: واضح رہے کہ جو گاڑیاں، موبائل یا جوتے بناوٹ، ماڈل اور معیار (کوالٹی) کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوں تو وہ الگ الگ جنس شمار ہوں گے، نیز یہ چیزیں چونکہ وزنی یا کیلی بھی نہیں ہیں، لہذا ان چیزوں کا آپس میں کمی بیشی کے ساتھ خرید وفروخت کا معاملہ ایک جانب سے ادھار کی بنیاد پر کرنا جائز ہے۔
البتہ اگر دونوں طرف سے گاڑیوں، موبائل یا جوتوں میں بناوٹ وغیرہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہ ہو تو ایسی صورت میں یہ ایک جنس شمار ہوں گے، لہذا جنس ایک ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان خرید و فروخت کا معاملہ مطلقاً ادھار کے طور پر ناجائز ہوگا۔
نیز انڈے اگرچہ عددی چیزیں ہیں، لیکن چونکہ یہ ایک جنس کے ہیں، جبکہ عددی چیزوں میں جنس ایک ہونے کی صورت میں ادھار کا معاملہ سود کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے ان کے درمیان خرید و فروخت کا معاملہ ادھار کے طور پر جائز نہیں ہوگا۔
تاہم عرف میں جن انڈوں کو ایک جنس شمار نہ کیا جاتا ہو، اُن میں کمی بیشی کے ساتھ ایک جانب سے ادھار کے طور پر خرید و فروخت کے معاملہ کی گنجائش ہوسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:

الفتاوى الهندية: (117/3، ط: دار الفکر)
وهو في الشرع عبارة عن فضل مال لا يقابله عوض في معاوضة مال بمال وهو محرم في كل مكيل وموزون بيع مع جنسه وعلته القدر والجنس ونعني بالقدر الكيل فيما يكال والوزن فيما يوزن فإذا بيع المكيل كالبر والشعير والتمر والملح أو الموزون كالذهب والفضة وما يباع بالأواقي بجنسه مثلا بمثل صح وإن تفاضل أحدهما لا يصح وجيده ورديئه سواء حتى لا يصح بيع الجيد بالرديء مما فيه الربا إلا مثلا بمثل ويجوز بيع الحفنة بالحفنتين والتفاحة بالتفاحتين وما دون نصف صاع في حكم الحفنة ولو تبايعا مكيلا أو موزونا غير مطعوم بجنسه متفاضلا كالجص والحديد لم يجز عندنا وإن وجد القدر والجنس حرم الفضل والنساء وإن وجد أحدهما وعدم الآخر حل الفضل وحرم النساء وإن عدما حل الفضل والنساء كذا في الكافي.

فقه البيوع: (635/2، ط: مكتبة معارف القرآن)
قد يكون كل واحد من الشيئين مصنوعاً، وبينهما اختلاف في الصنعة، ومثلها الفقهاء بالثوب الهروي المنسوب إلى هراة والمروي المنسوب إلى مرو)، قال ابن الهمام: "والثوب الهروي والمروي وهو بسكون الراء، جنسان لاختلاف الصنعة، وقوام الثوب بها، وكذا المروي المنسوج ببغداد وخراسان، واللبد الأرمني والطالقاني جنسان".
وعلى هذا، فالثياب المنسوجة ببلاد مختلفة أو شركات مختلفة تعتبر أجناساً مختلفة إن كان بينها تفاوت في الصناعة، وكذلك السيارات والدراجات والأجهزة الكهربائية المصنوعة ببلاد مختلفة، أو بشركات مختلفة.

رد المحتار: (170/5، ط: دار الفكر)
فلو باع خمسة أذرع من الهروي بستة أذرع منه أو بيضة ببيضتين جاز لو يدا بيد لا لو نسيئة لأن وجود الجنس فقط يحرم النساء لا الفضل كوجود القدر فقط كما يأتي.

الفقه الإسلامي وأدلته: (3710/5، ط: دار الفكر)
وأما الذي لا يباع بالكيل ولا بالوزن كالمعدود والمذروع: فإنه لا يشتمل على ربا الفضل، فيصح بيع البيضة بالبيضتين، والذراع من قماش بذراعين من قماش من جنسه، بشرط القبض.

الموسوعة الفقهية الكوتية: (268/8، ط: دار السلاسل)
هذا ويختلف الفقهاء في اعتبار البيض من الربويات وعدم اعتباره.
فذهب الحنفية والحنابلة وابن شعبان من المالكية، وهو القديم عند الشافعية: إلى أنه لا يعتبر البيض من الربويات؛ لأن علة الربا عندهم الكيل مع الجنس، أو الوزن مع الجنس، وهذا بالنسبة لربا الفضل. ولا يتحقق الربا إلا بإجماع الوصفين: الجنس والقدر (الكيل أو الوزن) ، وعلى ذلك يجوز بيع بيضة ببيضتين إذا كان يدا بيد؛ لأنه لا تتحقق فيه العلة. إلا أنه روي عن الإمام أحمد كراهة بيع بيضة ببيضتين لعلة الطعم.
ويحرم بيع البيض بالبيض نساء؛ لأن علة ربا النساء هي أحد وصفي علة ربا الفضل، أما الكيل أو الوزن المتفق، أو الجنس فالجنس بانفراده يحرم النساء. وهذا عند الحنفية بالنسبة للنساء.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Loan, Interest, Gambling & Insurance