resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: مشترکہ کاروبار کی شرائط اور ممانعت کی صورتیں

(32425-No)

سوال: مفتی صاحب! کیا مشترکہ کاروبار کرنا درست ہے؟ نیز مشترکہ کاروبار میں ممانعت کی صورتیں واضح کر دیں۔

جواب: ‏دو یا زائد افراد کا باہمی رضامندی سے مشترکہ سرمایہ کے ذریعے کاروبار کرنا فقہی کی اصطلاح میں "شِرکۃ یا مشارکت /شراکت داری" کہلاتا ہے، اور شریعتِ مطھّرہ میں یہ معاملہ اصولی طور پر جائز ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں دو شریکوں کا تیسرا ہوں جب تک کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ خیانت نہ کرے، اور جب کوئی اپنے ساتھی کے ساتھ خیانت کرتا ہے تو میں ان کے درمیان سے ہٹ جاتا ہوں“۔ ( ابو داؤد حدیث نمبر: 3383)
لہذا مشترکہ کاروبار بلا شبہ جائز ہے، بشرطیکہ اس کے شرعی اصولوں کی پابندی کی جائے۔
شراکت داری (مشترکہ کاروبار) کے درست ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں:
1- تمام شرکاء کا سرمایہ معلوم ہو کہ ہر شریک نے کتنی رقم لگائی ہے۔
2- ہر شریک کے نفع کا تناسب متعین ہو، مثلاً فیصد کے اعتبار سے %60 – %40۔
3- کاروبار میں نقصان کی صورت میں ہر شریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا۔
4- تمام شرکاء کی ذمّے داریاں واضح ہوں کہ انتظام کون کرے گا، خرید و فروخت وغیرہ کون دیکھے گا، تاکہ بعد میں کسی قسم کے نزاع کا باعث نہ بنے، سب طے ہو۔
5- کاروبار بذات خود جائز ہو، سرمایہ اور کام دونوں حلال ہوں، سود، جوا، یا ناجائز تجارت شامل نہ ہو۔
6- شرکت کا معاہدہ واضح ہو، اس میں کوئی ابہام اور غرر نہ ہو۔
مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کے ساتھ مشترکہ کاروبار جائز ہے، اور ان شرعی اصولوں کی خلاف ورزی یا کوئی شرط فاسد لگانے کی صورت میں شرکت کا معاملہ ناجائز یا فاسد ہو جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

السنن لأبی داؤد: (رقم الحدیث: 3383)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَفَعَهُ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ، يَقُولُ: أَنَا ثَالِثُ الشَّرِيكَيْنِ مَا لَمْ يَخُنْ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَإِذَا خَانَهُ خَرَجْتُ مِنْ بَيْنِهِمَا".

مصنف عبد الرزاق: (رقم الحديث: 15087)
عبد الرَّزَّاق قال: قال القيس بن الرّبيع، عن أبي الحُصَيْن، عن الشَّعْبِيِّ، عن عليّ في المضاربة: « الْوَضِيعَةُ عَلَى الْمَالِ، وَالرِّبْحُ عَلَى مَا اصْطَلَحُوا عَلَيْهِ» وَأَمَّا الثَّوْرِيُّ فَذَكَرَهُ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنْ عَلِيٍّ فِي الْمُضَارَبَةِ، أَوِ الشِّرْكَيْنِ

رد المحتار: (312/4، ط: دار الفکر)
وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط

الفتاوی الهندية: (کتاب الشركة، فصل فى بيان شرائط انواع الشركة، 56/6، ط: دار الكتب العلمية)
(ومنها): أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح

مجلة الأحكام العدلية: (المادة: 1411، ص: 272، ط: نور محمد)
يشترط في المضاربة أن يكون رأس المال معلوما كشركة العقد أيضا وتعيين حصة العاقدين من الربح جزءا شائعا كالنصف والثلث ولكن إذا ذكرت الشركة على الإطلاق بأن قيل مثلا الربح مشترك بيننا "يصرف إلى المساواة"

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial