سوال:
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اگر تم طویل عرصہ زندہ رہے تو دیکھو گے کہ عورت حیرہ (عراق کے شہر) سے مکہ تک اکیلے سفر کرے گی اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گی۔"
اس حدیث میں ایک پیش گوئی ہے، لیکن نبی ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ عورت گناہگار ہوگی، اور مثال بھی مسلمان عورت کی دی تو اگر کوئی اس حدیث سے یہ استدلال کرے کہ جب فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، عورت خود کو محفوظ رکھ سکے تو وہ بغیر محرم سفر کر سکتی ہےتو کیا یہ استدلال حرام ہے؟ کیونکہ میری فیملی میں زیادہ تر لوگ بیٹیوں کو اسی بنیاد پر اکیلے سفر کرنے دیتے ہیں اور الحمدللہ انہیں کچھ نہیں ہوتا۔
مفتی صاحب! اس ضمن میں میرا سوال یہ ہے کہ میں گناہ نہیں کرنا چاہتی، لیکن ورلڈ ٹور میرا جنون ہے تو میں کیا کروں؟
دوسرے ملک میں اکیلے رہنے کی وجہ سے کبھی کبھی والد صاحب کے نہ آنے کی وجہ سے مجھے اکیلے سفر کرنا پڑا، لیکن وہ صرف اس لیے تھا کہ میرا ویزا ورنہ ریجیکٹ ہو جاتا جس سے بہت سی مشکلات پیدا ہوسکتی تھیں، والد صاحب اس وقت مصروف تھے، وہ آ نہیں سکتے تھے اور بھائی بھی یہاں نہیں ہوتے تو کیا میں یہ سب کر کے حرام کر رہی ہوں؟
جواب: واضح رہے کہ متعدّد احادیث مبارکہ میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو شوہر یا محرم کے بغیر شرعی مسافت سے منع فرمایا ہے، خواہ وہ سفر کسی دنیوی غرض سے ہو یا کسی دینی غرض (حج/عمرہ) سے ہو، لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں آپ کے لیے بلا محرم سفر کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ ساتھ میں کسی محرم کا ساتھ ہونا شرعاً ضروری ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کا تعلّق ہے تو اس میں عورت کو بلا محرم سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے، بلکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیا میں امن و امان کے ساتھ اسلام کے پھیلنے کو بیان فرمایا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ہر طرف اسلام پھیل جائے گا اور مسلمان مرد و عورت بلا خوف و خطر دور دراز کا سفر کر سکیں گے اور انہیں اپنی جان، مال اور عزت و آبرو کا خوف لاحق نہ ہوگا، اس لیے صرف مذکورہ بالا روایت کو بنیاد بنا کر عورت کے لیے بلا محرم سفر کو جائز قرار دینا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
عمدة القاري شرح صحيح البخاري: (222/10، ط: دار إحياء التراث العربي)
2681- حدثنا أبو النعمان قال حدثنا حماد بن زيد عن عمر وعن أبي معبد مولى ابن عباس عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما قال قال النبي صلى الله عليه وسلم لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم ولا يدخل عليها رجل إلا ومعها محرم فقال رجل يا رسول الله إني أريد أن أخرج في جيش كذا وكذا وامرأتي تريد الحج فقال اخرج معها... وفيه: أن النساء كلهن سواء في منع المرأة عن السفر، إلا مع ذي محرم، إلا ما نقل عن أبي الوليد الباجي أنه: خصه بغير العجوز التي لا تشتهى. وقال ابن دقيق العيد: الذي قاله الباجي تخصيص للعموم بالنظر إلى المعنى، يعني مراعاة الأمر الأغلب، وتعقب بأن لكل ساقطة لاقطة. فإن قلت: يمكن أن يحتج للباجي فيما قاله بحديث عدي بن حاتم مرفوعا: (يوشك أن تخرج الظعينة من الحيرة تؤم البيت لا جوار معها) الحديث في البخاري قلت: هذا يدل على جوده لا على جوازه، وأجاب بعضهم عن هذا بأنه خبر في سياق المدح ورفع منار الإسلام، فيحمل على الجواز قلت: هذا إخبار من الشارع بقوة الإسلام وكثرة أهله ووقوع الأمن فلا يستلزم ذلك الجواز.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی