resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: تعزیت کا مسنون طریقہ، تدفین کے بعد قبر پر ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا اور تدفین کے بعد میت کے گھر آکر اجتماعی دعا کرنا اور کھانا کھانا

(33444-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! میرے تدفین اور تعزیت سے متعلق چند سوالات ہیں، براہ کرم ان کے جوابات عنایت فرمادیں:
1) شرعیت کی روشنی میں تعزیت کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
2) ہمارے علاقوں میں میت کو دفنانے کے بعد قبر پر اجتمائی ہاتھ اٹھا کردعامانگی جاتی ہے، قبر پر دعا مانگنے کے بعد پھر لوگ میت کے گھر پہنچ کردعا کرتے ہیں، اس کے بعد کھانا کھا کر لوگ چلے جاتے ہیں، اس بارے میں شریعت کا حکم کیا ہے؟
(3) میت کےگھر والے تین دن تک اپنے گھر بیٹھ کر میت کے لیے تعزیت کرتے ہیں، ان تین دنوں کے دوران لوگ آتے ہیں اور بار بار ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہتے ہیں اورپھر تیسرے دن کچھ قریبی رشتہ دار لوگ جمع ہوجاتے ہیں، پھر دعاؤں اور کھانے کا سلسلہ چلتا ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب: 1) واضح رہے کہ میت کے گھر والوں اور رشتہ داروں سے تین دن تک کسی بھی وقت ایک مرتبہ تعزیت کی جاسکتی ہے۔
تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کے اہل خانہ کے پاس جاکر تعزیت کرے، تعزیت میں اہلِ میت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرکے ان کو تسلّی دے، صبر کی تلقین کرے اور میت کے حق میں دعا کر کے واپس لوٹ جائے۔
جہاں تک ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا تعلّق ہے تو اگر اسے سنّت سمجھ کر اس کا التزام کیا جاتا ہو، نیز ہاتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اس طرح رسم بن گیا ہو کہ ہاتھ نہ اٹھانے والے کو ملامت کی جاتی ہو تو ایسی صورت میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا بدعت ہے۔ تاہم اگر اسے سنت نہ سمجھاجائے اور رسم و رواج کے طور پر اس کا التزام بھی نہ کیا جائے تو ایسی صورت میں ہاتھ اٹھانا بدعت نہیں ہے۔ اس سے متعلق مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتوی ملاحظہ ہو:
https://alikhlasonline.com/detail.aspx?id=10032

2) تدفین سے فارغ ہونے کے فوراً بعد قبلہ رُخ ہو کر اجتماعی دعا کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کو لازم نہ سمجھا جائے اور نہ کرنے والے کو ملامت نہ کی جائے، ایک حديث مبارکہ میں ہے: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو اس کی قبر کے پاس کھڑے ہو جاتے اور فرماتے: "اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی مانگو، کیونکہ اس سے اب سوال کیا جا رہا ہے۔" (سنن ابوداود، حدیث 3221)
3) تدفین کے بعد میت کے عزیز و اقارب سے تعزیت کی غرض سے ان کے گھر جانے میں مضائقہ نہیں، جہاں تک کھانے کا تعلق ہے تو اس سے متعلق واضح رہنا چاہیے کہ ضیافت کا تعلق خوشی کے موقع سے ہے، تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت مکروہ اور قابلِ ترک بدعت ہے، علامہ ابن الہمامؒ لکھتے ہیں:
"میت کے گھر والوں کی طرف سے مہمان نوازی کے لیے کھانا تیار کرنا مکروہ ہے، کیونکہ یہ عمل خوشی کے موقع پر مشروع ہے، غم کے موقع پر نہیں۔ یہ ایک ناپسندیدہ بدعت ہے۔ امام احمد اور ابن ماجہ نے ایک صحیح سند کے ساتھ جریر بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ "ہم میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونے اور ان کے طرف سے کھانا تیار کرنے کو نوحہ گری میں شمار کرتے تھے۔"
البتہ میت کے گھر والوں کے پڑوسیوں اور دور کے رشتہ داروں کے لیے مستحب ہے کہ وہ ان کے لیے کھانا تیار کریں جو انہیں ایک دن اور ایک رات کے لیے کافی ہو۔ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
"جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، کیونکہ ان پر ایسا معاملہ آ گیا ہے جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔" فتح القدير: (2/ 142)
تاہم جو لوگ دور دراز سے جنازہ میں شرکت کے لیے آئیں اور کسی وجہ سے واپس نہ جاسکیں تو ان کے لیے میت کے گھر والے یا ان کے قریبی عزیز و اقارب کھانے کا بندوبست کر دیں تو اس کی اجازت ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح البخاري: (رقم الحديث: 1284، ط: دار طوق النجاة)
عن ‌أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: "أَرْسَلَتِ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ: إِنَّ ابْنًا لِي قُبِضَ فَأْتِنَا، فَأَرْسَلَ يُقْرِئُ السَّلَامَ، وَيَقُولُ: ‌إِنَّ ‌لِلهِ ‌مَا ‌أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ. فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا، فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَرِجَالٌ، فَرُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِيُّ وَنَفْسُهُ تَتَقَعْقَعُ، قَالَ: حَسِبْتُهُ أَنَّهُ قَالَ: كَأَنَّهَا شَنٌّ، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا؟ فَقَالَ: هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ."

سنن أبي داود: (5/ 127، رقم الحديث: 3221، ط: الرسالة)
باب الاستغفار عند القبر للميت:
حدَّثنا إبراهيمُ بن موسى الرازيُّ، حدَّثنا هشامٌ -يعني: ابن يوسف-، عن عبدِ الله بن بَحِير، عن هانىء مولى عثمانَ عن عثمان بن عفان، قال: كان النبيُّ صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقفَ عليه فقال: "‌اسْتَغفِرُوا ‌لأخيكُم وسَلُوا له بالتثبيت؛ فإنه الآن يُسألُ".»

فتح القدير للكمال بن الهمامؒ: (2/ 142، ط: دار الفكر)
ويكره ‌اتخاذ ‌الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. روى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة. ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم لقوله صلى الله عليه وسلم «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون، والله أعلم.

الدر المختار: (2/ 239 إلى 242، ط: دار الفكر)
«وبتعزية أهله وترغيبهم في الصبر وباتخاذ طعام لهم وبالجلوس لها في غير مسجد ثلاثة أيام، وأولها أفضل. وتكره بعدها إلا لغائب. وتكره التعزية ثانيا، وعند القبر، وعند باب الدار؛ ويقول عظم الله أجرك، وأحسن عزاءك، وغفر لميتك»
وفي رد المحتار تحته:
قلت: وما في البحر من «أنه صلى الله عليه وسلم جلس لما قتل جعفر وزيد بن حارثة والناس يأتون ويعزونه» اه يجاب عنه بأن جلوسه صلى الله عليه وسلم لم يكن مقصودا للتعزية. وفي الإمداد: وقال كثير من متأخري أئمتنا يكره ‌الاجتماع عند ‌صاحب ‌البيت ويكره له الجلوس في بيته حتى يأتي إليه من يعزي، بل إذا فرغ ورجع الناس من الدفن فليتفرقوا ويشتغل الناس بأمورهم وصاحب البيت بأمره اه.

الجامع الكامل للضياء الأعظمي: (4/ 271، ط: دار السلام)
«باب الاستغفار للميت عند القبر بعد دفنه
* عن عثمان بن عفان قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت، وقف عليه فقال: "استغفروا لأخيكم، وسَلُوا له التثبيتَ، فإنه الآن يُسأل".
حسن: أخرجه أبو داود (3221) عن إبراهيم بن موسي الرازي، حدثنا هشام، عن عبد الله بن بَحير، عن هانئ مولي عثمان، عن عثمان بن عفان فذكره.... أما رفع اليدين مستقبل القبلة عند دفن الميت والدعاء له فلم يثبت، وأما ما روي عن عبد الله بن مسعود قال: والله لكأني أنطبع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة ‌تبوك، وهو في قبر ذي ‌البجادين، وأبو بكر وعمر، وهو يقول: "أدنيا إلى أخاكما"، فأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده، ثم خرج النبي صلى الله عليه وسلم ووليا العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه يقول: "اللهم! إني أمسيت عنه راضيًا، فارض عنه"، وكان ذلك ليلا ، فواللهّ لقد رأيتني ولقد أسلمت قبله بخمسة وعشرين سنة ولوددت أني مكانه، فهو غريب.
رواه البغوي في "معجم الصحابة" (2/ 323) عن عبد الله بن أبي سعد، نا إسحاق بن إبراهيم الفارسي، قال: ثني جدي سعد بن الصلت، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن عبد الله، فذكره.
ورواه أبو نعيم في "الحلية" (1/ 122)، وفي "معجم الصحابة" (3/ 1636) من طريق محمد بن ‌عمر بن حفص، ثنا إسحاق بن إبراهيم شاذان بإسناده مثله.
وأخرجه ابن مندة -كما في "الإصابة"- من طريق سعد بن الصلت بإسناده، والغالب أنه من طريق إسحاق بن إبراهيم والنهشلي، المعروف بشاذان الفارسي، ابن ابنة سعد بن الصلت ترجمه ابن أبي حاتم في "الجرح والتعديل" (2/ 211)، وقال: "هو صدوق".
وسعد بن الصلت هو ابن بُرد بن أسلم القاضي، ترجمه الذهبي في "السير" (9/ 317) ووصفه بأنه الإمام المحدث الفقيه. سأل عنه سفيان الثوري، فقال: "ما فعل سعد؟ " قالوا: ولي قضاء شيراز، قال: "دُرة وقع في الحُشّ"، قال الذهبي: "هو صالح الحديث، وما علمت لأحد فيه جرحًا". انتهى. وذكره ابن حبان في "الثقات" وقال: "ربما أغرب".
قلت: لعل هذا الحديث من غرائبه، فإنه تفرد بالرواية عن الأعمش، وهو كثير الرواية. وقد حكم الذهبي أيضًا على حديث رواه سعد بن الصلت، عن عيسي بن عمر بإسناده مرفوعًا: "من حج عن أبويه، ولم يحجا جزي عنهما، وعنه، ونُشرت أرواحهما في السماء، وكتب عند الله برًا".
قال الذهبي: "غريب جدًّا، وعيسي هذا هو الكوفي المقرئ صدوق".
وللحديث إسناد آخر وهو ما رواه محمد بن إسحاق، قال: حدثني محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي، أن عبد الله بن مسعود كان يحدث، قال: قمت من جوف الليل، وأنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، قال: فرأيت شعلة من نار في ناحية العسكر، قال: فاتبعتها أنظر إليها، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبو بكر، وعمر، وإذا عبد الله ذو البجادين المزني قد مات، وإذا هم قد حفروا له، ورسول الله صلى الله عليه وسلم في حفرته، وأبو بكر وعمر يدلّيانه إليه، وهو يقول: "أدنيا إلي أخاكم"، فدلّياه، فلما هيأه لشقِّه قال: "اللهم! إني أمسيت راضيًا عنه، فارض عنه"، قال: يقول عبد الله بن مسعود: ياليتني كنت صاحب الحفرة.
رواه البغوي في "معجم الصحابة"، وأبو نعيم في "الحلية"، وهو في "سيرة ابن هشام" (2/ 527) كلهم من حديث محمد بن إسحاق، وفيه انقطاع كما أشار إليه ابن حجر في "الإصابة" (2/ 339).... إلخ

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Funeral & Jinaza