resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: کسی کو گاڑی چلانے کیلئے "مضاربت بالعروض" کا معاملہ کرنا

(33462-No)

سوال: مفتی صاحب! میری ایک گاڑی ہے، میں اپنے ایک دوست کو گاڑی دی تاکہ وہ اسے آگے کرائے پر چلائے اور اس سے جو نفع ہوگا وہ ہم دونوں میں برابر برابر تقسیم ہوگا، البتہ نقصان کی صورت میں خرچ میں (گاڑی کا مالک)برداشت کروں گا۔ کیا ایسا معاملہ کرنا شرعاً درست ہے؟

جواب: ‏پوچھی گئی صورت مضاربت بالعروض (سامان میں مضاربت) کی ہے کہ ایک شخص کی گاڑی ہے اور دوسرا شخص اس گاڑی کو آگے کرایہ پر چلائے گا۔
اصولی طور پر فقہائے احناف کے ہاں سرمایہ کا نقدی کی شکل میں ہونا ضروری ہے، صرف سامان میں مضاربت نہیں ہوسکتی، البتہ فقہائے مالکیہ کے ہاں مضاربت بالعروض بھی جائز ہے، اور آج کل بہت سے کاروباری صورتوں میں ابتلائے عام کی وجہ سے بعض علماء کرام نے اس کی اجازت دی ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں مضاربت بالعروض کے تحت اس طرح معاملہ کرنے کی گنجائش ہے، البتہ اس صورت میں معاملہ کرتے وقت گاڑی کی مالیت معلوم کرنا ضروری ہے، تاکہ سرمایہ (رأس المال) کی مقدار معلوم ہوسکے۔

جہاں تک مضاربت میں نفع و نقصان کی تقسیم کا تعلق ہے تو چونکہ نفع کی تقسیم کے سلسلے میں شرعاً کوئی مخصوص تناسب لازم نہیں کیا گیا، لہذا فریقین باہمی رضامندی سے کوئی بھی فیصدی تناسب طے کرسکتے ہیں، جبکہ نقصان ہونے کی صورت میں (اگر کاروبار میں پہلے نفع ہوا ہو تو) حاصل شدہ نفع سے نقصان کی تلافی کی جائے گی، یہاں تک کہ اصل سرمایہ (رأس المال) کی مقدار پوری کرلی جائے، اگر اصل سرمایہ کی مقدار پوری ہونے کے بعد بھی نقصان پورا نہ ہو تو یہ نقصان رب المال (سرمایہ لگانے والے) کا شمار کیا جائے گا، اس میں دوسرے فریق (مضارب) کو شریک نہیں ٹہرایا جاسکتا، البتہ اگر نقصان اسی کی غفلت و کوتاہی کی وجہ سے ہوا ہو تو ایسی صورت میں سارے نقصان کا ذمّہ دار وہی (مضارب) ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھدایة: (200/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
قال: "المضاربة عقد على الشركة بمال من أحد الجانبين" ومراده الشركة في الربح وهو يستحق بالمال من أحد الجانبين "والعمل من الجانب الآخر" ولا مضاربة بدونها؛ ألا ترى أن الربح لو شرط كله لرب المال كان بضاعة، ولو شرط جميعه للمضارب كان قرضا۔۔۔۔ قال: "ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة" من الربح لأن شرط ذلك يقطع الشركة بينهما ولا بد منها كما في عقد الشركة۔۔۔الخ

الدر المختار مع الرد (656/5، ط: سعید)
"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين (وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس المال وما فضل بينهما، وإن نقص لم يضمن)

بدائع الصنائع: (82/6)
أن يكون رأس المال من الدراهم أو الدنانير عند عامة العلماء فلا تجوز المضاربة بالعروض، وعند مالك رحمه اللہ : هذا ليس بشرط وتجوز المضاربة بالعروض.

کذا فی امداد الفتاویٰ: (495/3، ط.مکتبہ دارالعلوم کراچی
"اس صورت میں کمپنی قائم کرنے والوں کی طرف سے شرکت بالنفقہ نہ ہوگی، بلکہ بالعروض ہوگی، سو بعض ائمہ کے نزدیک یہ صورت جائز ہے….پس ابتلائے عام کی وجہ سے اس مسئلہ میں دیگر ائمہ کے قول پر فتوی دے کر شرکتِ مذکورہ کے جواز کا فتوی دیا جاتا ہے۔"

کذا فی فتاوی عثمانی: (38/3ط. مکتبة معارف القرآن)
"حاجت کے وقت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے شرکۃ بالعروض میں مالکیہ کا قول اختیار کرنے کی گنجائش دی ہے۔یہ گنجائش یہاں بھی ہو سکتی ہے۔"

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial