عنوان: کیا دنیاوی علوم پر بھی علم کا اطلاق ہوتا ہے؟ اور ان علوم کے اساتذہ کا ادب کرنا ضروری ہے؟ (3357-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! کیا اسکول کے اساتذہ کا مرتبہ و احترام اتنا ہی ہے جتنا مدرسہ کے اساتذہ کا ہے؟ یہ الجھن اس لیے پیش آئی، کیونکہ سنا ہے کہ اسکول کی تعلیم تو محض ایک فن ہے، اصل علم تو وہ ہے جو مدرسہ میں سکھایا جاتا ہے۔

جواب: ١- واضح رہے کہ کسی بھی جائز اور نافع علم وہنر کے استاد کا ادب انسان کی ترقی کا ضامن ہے، اس ادب میں دینی علم کے استاد اور دنیاوی علم کے استاد کا فرق نہیں ہے، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا استاد کے ادب کے بارے میں مشہور ارشاد ہے:
" جس نے مجھے علم کا ایک حرف بھی سکھایا، میں اس کا غلام ہوں، چاہے تو مجھے فروخت کردے اور چاہے تو مجھے آزاد کر دے۔
اور مشہور محاورہ بھی ہے: " باادب با نصیب، بے ادب بے نصیب" لہذا اپنے ہر استاد کا ادب لازم ہے۔
٢- جہاں تک دنیاوی علوم کے علم و فن ہونے کا تعلق ہے، اس بارے میں یہ بات خوب اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ قرآن وحدیث میں جس علم کے فضائل وارد ہوئے ہیں، اس علم سے "علم دین" ہی مراد ہوتا ہے، یہی علم انبیاء علیہم السلام کی میراث ہے اور بذاتِ خود اس علم میں مشغول ہونا عبادت اور اس پر اجر وثواب کا باعث ہے، اس کے ذریعے احکام شریعت معلوم ہوتے ہیں، حلال وحرام کی تمیز ہوتی ہے، اللہ کی معرفت اور رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سچی محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے،
تاہم دنیوی علوم وفنون مثلاً: انجینئرنگ، ٹیکنیکل، ڈاکٹری، آرکٹکنگ اور دیگر سوشل سائنسز کے علوم وغیرہ، دنیاوی علوم لغت کے لحاظ سے تو علم کہلاتے ہیں، مگر شریعت کی اصطلاح میں یہ تمام شعبے علم کے زمرے میں نہیں آتے، چنانچہ اس سلسلے میں حضرت حسن بن ربیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ یہ جو حدیث ہے:
"طلب العلم فریضة علی کل مسلم".
ترجمہ: علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ اس کے جواب میں حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: اس سے وہ دنیوی علوم مراد نہیں ہے، جو تم حاصل کرتے ہو، بلکہ جس علم کو حاصل کرنا فرض ہے، اس سے مراد وہ دینی علم ہے کہ جب کوئی شخص کسی دینی معاملے میں جاہل ہو، پھر وہ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔
نیزحضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”علم کا سیکھنا ہرمومن پر فرض ہے“ اس سے مراد روزہ، نماز، حلال وحرام اور حدود واحکام کی معرفت حاصل کرنا ہے“۔
ہاں! گناہوں سے بچتے ہوئے کوئی بھی دنیوی جائز علم و فن سیکھنا شریعت میں ممنوع نہیں ہے، بلکہ فن کے سیکھنے میں اگر دین کی خدمت کی نیت کرلی جائے، تو اس نیت پر ثواب بھی ملے گا، لیکن اس کے باوجود اس فن کی حیثیت علم دین کے برابر نہیں ہوسکتی اور علم سے متعلق قرآن وحدیث میں وارد ہونے والے فضائل کا اس پر منطبق کرنا درست نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

فتح الباری: (باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم: الدین النصیحة، 141/1، ط: دار المعرفة)
والمرادُ بالعلم العلم الشرعي الذي یفید معرفة ما یجب علی المکلف من أمر دینہ في عباداتہ ومعاملاتہ، والعلم باللہ وصفاتہ وما یجب لہ من القیام بأمرہ وتنزیہہ عن النقائص، ومدارُ ذلک علی التفسیر والحدیث والفقہ".

الفقیه و المتفقه للخطیب: (وجوب التفقہ في الدین علی کل المسلمین، 171/1، ط: دار ابن الجوزي)
"عن حسن بن الربیع، قال: سألتُ ابن المبارک، قلتُ: ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“ أيُّ شيء تفسیر؟ قال: لیس ہو الذي تطلبون، إنما طلب العلم فریضة أن یقع الرجل في شيء من أمر دینیہ، یسأل عنہ، حتی یعلمہ".

و فیہ أیضا: (168/1)
"وعن علي بن أبي طالب رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: طلب العلم فریضة علی کل موٴمن أن یعرف الصوم والصلاة , والحرام والحدود والأحکام".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2125 Jan 16, 2020
Kia dunyawi uloom par bhee ilm ka Itlaaq hota hay, aur un uloom kay asatizah ka adab karna zaroori hay, Does the world knowledge also apply to worldly sciences? and is it necessary to respect teachers of these subjects we well

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.