سوال:
مفتی صاحب ! کیا جھینگا اور کلیجی کھا سکتے ہیں؟
جواب: (1) جھینگے (Prawns) کے حلال و حرام ہونے میں علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے، بعض علماء اس کے حلال ہونے کے قائل ہیں اور بعض حرام ہونے کے، اس اختلاف کی وجہ اس بات میں اختلاف ہے کہ جھینگا مچھلی کی اقسام میں سے ہے یا نہیں، تو جن فقہاء نے اسے مچھلی کی اقسام میں سے مانا ہے، وہ اس کا کھانا جائز قرار دیتے ہیں اور جو اسے مچھلی کی اقسام میں سے شمار نہیں کرتے، وہ اسے نا جائز قرار دیتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا تفصیلی مقالہ اس پر موضوع تکلملہ فتح الملھم اور فقہی مقالات میں موجود ہے، جسکا خلاصہ یہاں درج کردیا جارہا ہے:
"جھینگا" کو تقریباً اردو عربی کے تمام ماہرین لغت مچھلی کے اقسام میں سے مانتے ہیں اور علامہ دمیری نے بھی حیاةالحیوان میں اسے مچھلی کی اقسام میں سے ہی شمار کیا ہے اور اس کا مچھلی کی اقسام میں سے ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ یہ حلال ہو، لیکن اس دور کے ماہرین علم حیوانات اسے مچھلی کی اقسام میں سے نہیں مانتے، بلکہ وہ اس کو کیکڑے کی اقسام میں سے مانتے ہیں، کیونکہ مچھلی کے اندر دو خاصیتیں ضرور ہوتی ہیں (1) گلپھڑوں سے سانس لے (2)اس میں ریڑھ کی ہڈی موجود ہو اور جھینگا میں یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں، اس لیے اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ ناجائز ہو۔
لیکن لوگوں اور عرف عام میں اسے مچھلی ہی شمار کیا جاتا ہے اور شرعی معاملات میں جواز اور عدم جواز کے معاملے میں فنی باریکیوں سے زیادہ اہمیت عرف عام کی ہے، لہذا اس کا اعتبار کرتے ہوئے، اس کو مچھلی کی اقسام میں سے ہی شمار کیا جائے گا اور اس کے کھانے میں شدت اختیار کرتے ہوئے اس کے کے کھانے کو ناجائز قرار نہیں دیا جائے گا اور پھر جبکہ اس کے بارے میں علماء کا اجتہادی اختلاف بھی ہے، اسکا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اس کے حکم میں تخفیف ہوجائے اور اس کے کھانے کو ناجائز قرار نہ دیا جائے، بلکہ کھانا جائز ہو۔
لہٰذا جھینگا کھانا جائز تو ھے، البتہ بہتر اور اولی یہ ھوگا کہ جھینگا نہ کھایا جائے۔
تاہم جو کھا رہے ہیں، ان کو طعن و تشنیع نہ کیا جائے اور نہ ہی ان کو منع کیا جائے اور جو نہیں کھا رہے ہیں، ان کو کھانے پر مجبور نہیں کیا جائے۔
(2)حلال جانور کی کلیجی کھانا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تکملۃ فتح الملہم: (کتاب الصید و الذبائح، 513/3، ط: مکتبۃ دار العلوم کراتشی)
وأما الروبیان أو الإربیان الذي یسمی في اللغۃ المصریۃ: ’’جمبري‘‘ وفي اللغۃ الأردیۃ: ’’جھینگا‘‘ وفي الإنکلیزیۃ: ''SHRIMP" أو "PRAWN" فلا شک في حلتہ عند الأئمۃ الثلاثۃ؛ لأن جمیع حیوانات البحر حلال عندہم۔ وأما عند الحنفیۃ، فیتوقف جوازہ علی أنہ سمک أولا، فذکر غیر واحد من أہل اللغۃ أنہ نوع من السمک، قال ابن درید في جمہرۃ اللغۃ: ۳؍۴۱۴: وإربیان ضربٌ من السمک، وأقرہ في القاموس وتاج العروس: ۱؍۱۴۶۔ وکذٰلک قال الدمیري في حیاۃ الحیوان: ۱؍۴۷۳: الروبیان ہو سمک صغیرٌ جدًا أحمر۔ وأفتی غیر واحد من الحنفیۃ بجوازہ بنائً علی ذٰلک، مثل صاحب الحمادیۃ۔
وقال شیخ مشایخنا التہانويؒ في إمداد الفتاویٰ: ۴؍۱۰۳: لم یثبت بدلیل أن للسمک خواصٌ لازمۃٌ تنتفی السمکیۃُ بانتفائہا، فالمدار علی قول العدول المبصرین … وإن حیوۃ الحیوان‘‘ للدمیري الذي یبحث عن ماہیات الحیوان یصرّ بأن الروبیان ہو سمک صغیر … فإني مطمئن
إلی الآن بأنہ سمک - ولعل اللّٰہ یحدث بعد ذٰلک أمرًا …۔
ولکن خبراء علم الحیوان الیوم لا یعتبرونہ سمکًا، ویذکرونہ کنوع مستقل، ویقولون: إنہ من أسرۃ السرطان دون السمک۔ وتعریف السمک عند علماء الحیوان - علی ما ذکر في دائرۃ المعارف البریطانیۃ: ۹؍۳۰۵، طبع ۱۹۵۰م - ہو حیوان ذو عمود فقری، یعیش في الماء ویسبح بعوّاماتہ، ویتنفس بغلصمتہ، وإن الإربیان لیس لہ عمود فقری، ولا یتنفس بغلصمتہ۔ وإن علم الحیوان الیوم یقسم الحیوانات إلی نوعین کبیرین: الأول: الحیوانات الفقریۃ (VERTEBRATE)، وہي التي لہا عمود فقري في الظہر، ولہا نظام عصبي یعمل بواسطتہ۔ والثاني: الحیوانات غیر الفقریۃ (INVERTEBRATE) التي لیس لہا عمود فقري، وإن السمک یقع في النوع الأول، والإربیان في النوع الثاني۔
الذي ذکر في دائرۃ المعارف ۶؍۳۶۳، طبع ۱۹۸۸: أن التسعین في المائۃ من الحیوانات الحیۃ تتعلق بہٰذا النوع، وأنہ یحتوي علی الحیوانات القشریۃ والحشرات، وکذٰلک عرّف البستاني السمک في دائرۃ المعارف ۱۰؍۶۰، بقولہ: ’’حیوان من خلق الماء، واٰخر رتبۃ الحیوانات الفقریۃ، دمہ أحمر، یتنفس في الماء بواسطۃ خیاشیم، ولہ کسائر الحیوانات الفقریۃ ہیکل عظمی‘‘۔ وکذٰلک محمد فرید وجدي عرّفہ بقولہ: ’’السمک من الحیوانات البحریۃ، وہو یکوّن الرتبۃ الخامسۃ من الحیوانات الفقریۃ، دمہا بارد أحمر، تتنفس من الہواء الذائب في الماء بواسطۃ خیاشیمہا، وہي محلاۃ بأعضاء تمکنہا من المعیشۃ دائمًا، وتعوم فیہ بواسطۃ عوّامات، ولبعضہا عوامۃ واحدۃ … الخ‘‘۔
وإن ہٰذہ التعریفات لا تصدق علی الإربیان، وإنہ ینفصل عن السمک بأنہ لیس من الحیوانات الفقریۃ، فلو أخذنا بقول خبراء علم الحیوان، فإنہ لیس سمکًا، فلا یجوز علی أصل الحنفیۃ۔ ولکن السوال ہنا: ہل معتبر في ہٰذا الباب التدقیق العلمي في کونہ سمکًا، أو یعتبر العرف المتفاہم بین الناس؟ ولا شک أن عند اختلاف العرف یعتبر عرف أہل العرب؛ لأن استثناء السمک من میتات البحر، إنما وقع باللغۃ العربیۃ،
وقد أسلفنا أن أہل اللغۃ أمثال ابن درید، والفیروز آبادي، والزبیدي، والدمیري کلہم ذکروا أنہ سمک۔ فمن أخذ بحقیقۃ الإربیان حسب علم الحیوان، قال: بمنع أکلہ عند الحنفیۃ، ومن أخذ بعرف أہل العرب، قال: بجوازہ۔
وربما یرجع ہٰذا القول بأن المعہود من الشریعۃ في أمثال ہٰذہ المسائل الرجوع إلی العرف المتفاہم بین الناس، دون التدقیق في الأبحاث النظریۃ، فلا ینبغي التشدید في مسئلۃ الإربیان عند الإفتاء، ولا سیما في حالۃ کون المسئلۃ مجتہدًا فیہا من أصلہا، ولا شک أنہ حلال عند الأئمۃ الثلاثۃ، وأن اختلاف الفقہاء یورث التخفیف کما تقرر في محلہ، غیر أن الاجتناب عن أکلہ أحوط وأولیٰ وأحریٰ، واللّٰہ سبحانہ أعلم۔
صحیح مسلم: (كتاب الجهاد و السير، رقم الحدیث: 1807)
روی عن سلمۃ ابن الاکوع رضی اللہ عنہ وَإِذَا بِلَالٌ نَحَرَ نَاقَةً مِنَ الْإِبِلِ الَّذِي اسْتَنْقَذْتُ مِنَ الْقَوْمِ ، وَإِذَا هُوَ يَشْوِي لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَبِدِهَا وَسَنَامِهَا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی