سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک موٹر سائیکل جس کی اصل قیمت ایک لاکھ چھبیس ہزار ہے، اس کو چھ مہینے کی انسٹالمنٹ (قسطوں) پر ایک لاکھ بیالیس ہزار میں لینا کیسا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ قسطوں پر کسی چیز کی خرید و فروخت چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:
١- اس چیز کی مجموعی قیمت باہمی رضامندی سے طے کرلی جائے، چاہے یہ قیمت نقد کے مقابلے میں زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔
٢- قیمت کی وصولی کے لیے ماہانہ قسط کی مقدار اور تاریخ ادائیگی آپس میں مقرر کرلی جائے ۔
٣- کسی قسط کی گاہک کی طرف سے وصولی میں تاخیر یا کم ادا کرنے کی صورت میں اصل قیمت میں بطور جرمانہ اضافہ کرنے کی شرط نہ لگائی گئی ہو۔
ان شرائط کی پابندی کے ساتھ کسی بھی چیز کی قسطوں پر خرید و فروخت جائز ہے، ان میں سے کوئی شرط چھوٹ جائے، تو یہ خرید و فروخت جائز نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (كتاب البيوع، رقم الحديث: 1331، 533/3، ط: بيروت)
(تحت حدیث أبي هريرة رضي الله عنه: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة".)
"وقد فَسَّر بعض أہل العلم قالوا بیعتین في بیعة أن یقول: أبیعُک ہذا الثوب بنقد بعشرة وبنسیئة بعشرین، ولا یفارقہ علی أحد البیعتین فإذا فارقہ علی أحدہما، فلا بأس إذا کانت العقدة علی أحد منہما"․
المبسوط للسرخسی: (13/8، ط: دار المعرفة)
"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد،وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا، حتی قاطَعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ جاز".
مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر: (78/2)
المجلة: (رقم المادة: 225)
"البیعُ مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح".
بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة: (12/1، ط: مكتبة دار العلوم كراتشي)
"أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد".
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی