عنوان: بذریعہ ڈاک خریدی ہوئی چیز کے لیے مدت مقرر کرنا اور مدت گزرنے کے بعد معاملے کو ختم کرنے کا حکم (3456-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب !‎
ایک سوال عرض خدمت ہے، مہربانی فرما کر اس کا جواب عنایت فرمائیں۔
کسی دوسرے ملک سے آن لائن کوئی چیز اس شرط کے ساتھ خریدی گئی کہ اگر کسی بھی وجہ سے دو مہینے کے اندر وہ چیز بذریعہ ڈاک خریدار کے گھر تک نہ پہنچ سکی یا ڈاک میں کھو گئی، تو بیچنے والا خریدار کو پوری رقم واپس کرے گا، اور اگر وہ چیز بعد میں خریدار کو مل بھی جاتی ہے تو بھی ( معاہدے کے مطابق ) خریدار کسی رقم کا ذمہ دار نہ ہوگا۔
اب خریدار کچھ خریدتا ہے اور وہ چیز ڈاک میں کھو جاتی ہے اور دو مہینے بعد بھی خریدار کے گھر نہیں پہنچتی اور نہ ہی پوسٹ کی ٹریکنگ میں ملتی ہے، چنانچہ خریدار رقم کی واپسی کا مطالبہ کر دیتا ہے اور نتیجتا دوکاندار بھی وعدے کے مطابق مکمل رقم واپس کردیتا ہے، لیکن کچھ مدت بعد وہ چیز خریدار کے گھر بذریعہ ڈاک پہنچ جاتی ہے۔
اب ممکن ہے کہ خریدار کو اس کی ضرورت باقی نہ رہی ہو یا اس نے متبادل چیز کسی دوسری جگہ سے خرید لی ہو، اس صورت حال میں کیا خریدار کے لیے اس چیز کو رکھ لینا یا استعمال کرنا جائز ہوگا یا دوکاندار کو دوبارہ رقم دینی چاہیے؟
واضح رہے کہ بذریعہ ڈاک اس چیز کو واپس بھیجنا ممکن نہیں، اور امکان اسی بات کا ہے کہ دوکاندار نے اس نقصان کا ہرجانہ اپنی انشورنس کمپنی سے لے لیا ہوگا۔
جزاك اللهُ خيرًا

جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق، چونکہ بائع اور مشتری کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ خریدی ہوئی چیز، خریدار کے سپرد کرنے کی مدت دو ماہ ہوگی، دو ماہ میں خریدی ہوئی چیز، خریدار کو نہ پہنچی تو یہ معاملہ ختم ہو جائے گا اور بائع اس کی قیمت واپس کرنے کا پابند ہوگا، لہذا حسب معاہدہ جب یہ معاملہ ختم ہو گیا، تو اگر اس کے بعد وہ چیز موصول ہوتی ہے، اس چیز کا سابقہ معاملے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، لہذا یہ چیز سابقہ خریدار کے پاس امانت ہوگی، اگر اس کی ضرورت ہو تو اس کی قیمت بیچنے والے کو بھیج کر استعمال کرنا جائز ہے، ورنہ اس کو واپس کردینا ضروری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الموطأ: (کتاب القضاء، القضاء فی المرفق)
عن عمرو بن یحیی المزني، عن أبیہ أن رسول اﷲ ﷺ قال:" لا ضرر ولا ضرار".

شرح المجلۃ لرستم باز: (رقم المادۃ: 19)
"قولہ علیہ السلام: لا ضرر ولا ضرار۔ الحدیث، لا یضر الرجل أخاہ ابتدائً ا ولا جزاء۔ الخ".

فقہ البیوع: (أحکام الإیراد و الاستیراد، 1077/2)
"المسألۃ الثانیۃ: ہل یعتبر البرید وکیلا للبائع أو وکیلا للمشتري؟ والظاہر أن ہذا الأمر موقوف علی ما یتفق علیہ الطرفان والمتصور من ہذہ الجہۃ ثلاثۃ صور -إلی قولہ- الصورۃ الثالثۃ: أن لا یکون في التعاقد بینہما تصریح وطلب المشتري من البائع أن یبعث إلیہ المبیع عن طریق البرید ولم یصرح أحدہما بتحدید مسئولیۃ البائع ہل ہي بقدر إیصالہ إلی البرید فقط أو بإیصالہ إلی المشتري؟ وفي ہذہ الصورۃ أفتی جمع من العلماء بأن البرید وکیل للبائع -إلی قولہ- وأما في الصورۃ الثالثۃ: فقد أفتی الإمام الشیخ أشرف علي التھانوي والمفتي الأکبر الشیخ عزیز الرحمن العثمانيؒ بأن البائع ہو الضامن بناء علی أن البرید وکیل للبائع، والذي یظہر لي أن الحکم عند عدم تصریح العاقدین یرجع إلی العرف، فإن کان عرف التجار أن البرید وکیل للبائع فالحکم کما ذکرہ الشیخانؒ من کونہ ضامنا -إلی قولہ- والظاہر أن العرف في الإرسال عن طریق البرید ہو ما ذکرہ الشیخان فلا ینتقل بہ ضمان المبیع إلی المشتري الخ".

رد المحتار: (باب الوکالۃ بالبیع و الشراء، 516/5، ط: سعید)
"ہلک المبیع من یدہ قبل حبسہ ہلک من مال مؤکلہ ولم یسقط الثمن؛ لأن یدہ کیدہ".

الفتاوی الھندیۃ: (کتاب الوکالۃ)
"وإن ہلک المشتریٰ في ید الوکیل قبل الحبس ہلک علی الموکل من غیر ضمان علی الوکیل".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 539 Jan 27, 2020
Daak, Dak, Bazariya e Dak, Bazariya, Khareedi hui cheez, online khareedaari, muddat, muqarrar, karna, muddat guzarna, muamlay, ko, khatam, karna, waqt, Ruling on fixing delivery period for the item purchased by post and to close the matter after expiry of the period, delivery period, receiving product after the mutually agreed delivery period of product

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.