سوال:
مفتی صاحب! جائز منافع کی کیا مقدار ہے؟ مطلب اگر کسی چیز کی تیار میں کل خرچ 1500 تک آتا ہو تو منافع کی شرح کتنی رقم رکھی جائے؟
جواب: شریعت مطہرہ نے کسی بھی چیز پر زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کو حرام یا ناجائز کے درجے میں منع نہیں فرمایا، بلکہ ہر شخص کو اپنی مملوکہ اشیاء خواہ جتنے بھی نفع پر بیچنا چاہے اجازت دی ہے، بشرطیکہ ظلم اور دھوکہ نہ ہو، لیکن مروت، ہمدردی اور انسانوں کی خیرخواہی کا تقاضہ یہ ہے کہ نفع کی مقدار کم، مناسب اور مارکیٹ کے مطابق رکھی جائے، اور لوگوں کی ہمدردی، خیر خواہی کی غرض سے کم نفع پر بیچنا بلاشبہ باعثِ برکت و ثواب ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (99/1، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا»
الھدایۃ: (377/4، ط: دار احیاء التراث العربی)
قوله عليه الصلاة والسلام: "لا تسعروا فإن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق" ولأن الثمن حق العاقد فإليه تقديره۔۔إلا إذا تعلق به دفع ضرر العامة على ما نبين.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی