سوال:
آج کل یہ جو ایک بات پھیلی ہوئی ہے کہ قرآن کریم سے ایک باریک سا بال نکل رہا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ اللہ رب العزت کی طرف سے ہے تو کیا یہ بات ٹھیک ہے؟
جواب: شریعت اسلام میں اس بات کی کوئی اصل نہیں، یہ محض من گھڑت(لوگوں کی بنائی ہوئی) بات ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بد قستمی سے ہمارے معاشرے میں یہ وبا پھیل چکی ہے کہ ہم ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق آگے پھیلاتے ہیں، حالانکہ قرآن کریم میں جھوٹی خبروں، غلط باتوں اور بے بنیاد افواہوں کے بارے میں یہ ہدایت دی گئی ہے: ترجمہ:"اے ایمان والوں !اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پچتھاؤ" (سورہ حجرات :آیت نمبر:6)
اور اس طرح بے بنیاد باتوں کو پھیلانے والے منافقین کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں تنبیہ فرمائی ہے: ترجمہ:"اور جب ان کو کوئی بھی خبر پہنچتی ہے، چاہے وہ امن کی ہویا خوف پیدا کرنے والی تو یہ لوگ اسے (تحقیق کے بغیر)پھیلانا شروع کر دیتے ہیں اور اگر یہ اس (خبر) کو رسول کے پاس یا اصحاب اختیار کے پاس لے جاتے تو ان میں سے جو لوگ اس کی کھوج نکالنے والے ہیں، وہ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ۔" (سورہ نساء:آیت نمبر:83)
آپ ﷺنے ایسے شخص کو جھوٹا قرار دیا ہے جو ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق آگے پھیلاتا ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: "آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے"۔ (مسلم شریف، حدیث نمبر :7)
لہذا ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قسم کی باتوں پر دھیان نہ دے اور ان کاموں کی طرف توجہ دے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الحجرات، الایۃ: 6)
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِن جَاء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیْبُوا قَوْماً بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنo
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 7)
عن ابى هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كفى بالمرء كذبا، ان يحدث بكل ما سمع.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی