عنوان:
وبائی امراض سے متاثرہ علاقے سے باہر جانے کا حکم (3764-No)
سوال:
کیا وبا کے پھیلنے کی صورت میں اس جگہ جانے کی ممانعت کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہے یا بہتر ہے؟ مزید یہ بھی رہنمائی فرمائیں کہ ان حالات میں اس علاقہ میں دینی یا دنیوی سفر کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: احادیث شریف میں ایسی جگہ جانے سے منع کیا گیا ہے جہاں طاعون پھیل چکا ہو، اسی طرح ایسی جگہ سے باہر نکلنے کے بارے میں بھی ممانعت کی گئی ہے۔
بخاری شریف میں ہے:عامر بن سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے یہ پوچھتے سنا تھا کہ طاعون کے بارے میں آپ نے نبی کریم ﷺسے کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: طاعون ایک عذاب ہے جو پہلے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیا تھا یا آپ ﷺ نے یہ فرمایا: ایک گزشتہ امت پر بھیجا گیا تھا۔ اس لیے جب کسی جگہ کے متعلق تم سنو (کہ وہاں طاعون پھیلا ہوا ہے) تو وہاں نہ جاؤ، لیکن اگر کسی ایسی جگہ یہ وبا پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ ابوالنضر نے کہا یعنی بھاگنے کے سوا اور کوئی غرض نہ ہو تو مت نکلو۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر:3473)
اسی طرح کی کئی روایات صحیح مسلم ، سنن ابی داؤد اور سنن ترمذی وغیرہ میں موجود ہیں۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ طاعون سے وبائی امراض مراد ہے۔
مذکورہ بالا حدیث شریف کی تشریح میں محدّثین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جہاں طاعون پھیلا ہو ، وہاں مت جاؤ ، کیونکہ وہاں جانے کی صورت میں وبائی مرض کے بارے میں اللہ کے سامنے جرأت کا اظہار کرنا ہے اور جہاں موجود ہو،وہاں سے ڈر اور خوف کی وجہ سے نکلنا چاہو تو یہ تقدیر سے بھاگنا ہے جس کاکوئی فائدہ نہیں ہے ، اس لیے یہ دونوں کام درست نہیں۔
حافظ ابن حجرؒ نے اس مسئلہ کو "فتح الباری" (180/10) میں مزید تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ طاعون زدہ علاقے سے باہر آنے والے کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں:
۱) پہلی یہ کہ کوئی شخص طاعون سے بھاگنے کے مقصد سے ہی اس علاقہ سے باہر چلا جائے تو بلا شبہ یہ شخص اس ممانعت میں شامل ہے۔
۲) دوسری صورت یہ کہ کوئی شخص محض تجارت وغیرہ یا کسی اور غرض سے طاعون زدہ علاقہ سے باہر چلا جائے تو ایسا شخص اس ممانعت میں شامل نہیں ہے۔
۳) تیسری صورت یہ کہ کوئی انسان کسی ضروری کام کی وجہ سے طاعون زدہ علاقے سے باہر نکلے اور ساتھ ساتھ یہ ارادہ بھی ہو کہ اس طرح طاعون سے بچاؤ بھی ممکن ہوجائے گا تو اس شخص کے بارے میں علمائے کرام مختلف رائے رکھتے ہیں۔ حافظ ابن حجرؒنے اس صورت کے بارے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا موقف یہ بیان کیا ہے کہ اس صورت میں بھی طاعون زدہ علاقے سے باہر جانا جائز ہے۔
خلاصہ کلام: اگر کہیں کوئی وبا پھیل جائے تو اس علاقے سے بھاگنے کے بجائے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، البتہ اگر کوئی شخص کسی کام سے باہر جارہا ہو تو اس وبائی جگہ سے نکلنے میں حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (باب من انتظر حتی تدفن۔ حدیث نمبر: 3473)
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال: حدثني مالك، عن محمد بن المنكدر، وعن ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص، عن ابيه، انه سمعه يسال اسامة بن زيد ماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في الطاعون، فقال: اسامة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الطاعون رجس ارسل على طائفة من بني إسرائيل او على من كان قبلكم فإذا سمعتم به بارض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه، قال ابو النضر: لا يخرجكم إلا فرارا منه".
فتح الباری: (180/10، ط: دار المعرفة)
وَالطَّاعُونُ بِوَزْنِ فَاعُولٍ مِنَ الطَّعْنِ عَدَلُوا بِهِ عَنْ أَصْلِهِ وَوَضَعُوهُ دَالًا عَلَى الْمَوْتِ الْعَامِّ كَالْوَبَاءِ وَيُقَالُ طُعِنَ فَهُوَ مَطْعُونٌ وَطَعِينٌ إِذَا أَصَابَهُ الطَّاعُونُ وَإِذَا أَصَابَهُ الطَّعْنُ بِالرُّمْحِ فَهُوَ مَطْعُونٌ هَذَا كَلَامُ الْجَوْهَرِيِّ وَقَالَ الْخَلِيلُ الطَّاعُونُ الْوَبَاءُ۔
وَلَا شَكَّ أَنَّ الصُّوَرَ ثَلَاثٌ مَنْ خَرَجَ لِقَصْدِ الْفِرَارِ مَحْضًا فَهَذَا يَتَنَاوَلُهُ النَّهْيُ لَا مَحَالَةَ وَمَنْ خَرَجَ لِحَاجَةٍ مُتَمَحِّضَةٍ لَا لِقَصْدِ الْفِرَارِ أَصْلًا وَيُتَصَوَّرُ ذَلِكَ فِيمَنْ تَهَيَّأَ لِلرَّحِيلِ مِنْ بَلَدٍ كَانَ بِهَا إِلَى بَلَدِ إِقَامَتِهِ مَثَلًا وَلَمْ يَكُنِ الطَّاعُونُ وَقَعَ فَاتَّفَقَ وُقُوعُهُ فِي أَثْنَاءِ تَجْهِيزِهِ فَهَذَا لَمْ يَقْصِدِ الْفِرَارَ أَصْلًا فَلَا يَدْخُلُ فِي النَّهْيِ وَالثَّالِثُ مَنْ عَرَضَتْ لَهُ حَاجَةٌ فَأَرَادَ الْخُرُوجَ إِلَيْهَا وَانْضَمَّ إِلَى ذَلِكَ أَنَّهُ قَصَدَ الرَّاحَةَ مِنَ الْإِقَامَةِ بِالْبَلَدِ الَّتِي وَقَعَ بِهَا الطَّاعُونُ فَهَذَا مَحَلُّ النِّزَاعِ وَمِنْ جُمْلَةِ هَذِهِ الصُّورَةِ الْأَخِيرَةِ أَنْ تَكُونَ الْأَرْضُ الَّتِي وَقَعَ بِهَا وَخِمَةً وَالْأَرْضُ الَّتِي يُرِيدُ التَّوَجُّهَ إِلَيْهَا صَحِيحَةً فَيَتَوَجَّهُ بِهَذَا الْقَصْدِ فَهَذَا جَاءَ النَّقْلُ فِيهِ عَنِ السَّلَفِ مُخْتَلِفًا فَمَنْ مَنَعَ نَظَرَ إِلَى صُورَةِ الْفِرَارِ فِي الْجُمْلَةِ وَمَنْ أَجَازَ نَظَرَ إِلَى أَنَّهُ مُسْتَثْنًى مِنْ عُمُومِ الْخُرُوجِ فِرَارًا لِأَنَّهُ لَمْ يَتَمَحَّضْ لِلْفِرَارِ وَإِنَّمَا هُوَ لِقَصْدِ التَّدَاوِي وَعَلَى ذَلِكَ يُحْمَلُ مَا وَقَعَ فِي أَثَرِ أَبِي مُوسَى الْمَذْكُورِ أَنَّ عُمَرَ كَتَبَ إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً فَلَا تَضَعْ كِتَابِي مِنْ يَدِكَ حَتَّى تُقْبِلَ إِلَيَّ۔
مرقاة المفاتيح: (21/4، ط: دار الکتب العلمیة)
وَقَالَ الطِّيبِيُّ: الطَّاعُونُ هُوَ الْمَرَضُ الْعَامُّ وَالْوَبَاءُ الَّذِي يَفْسَدُ بِهِ الْهَوَاءُ، فَتَفْسَدُ بِهِ الْأَمْزِجَةُ وَالْأَبْدَانُ، وَقِيلَ: الطَّاعُونُ هُوَ الْمَوْتُ بِالْوَبَاءِ بِالْمَدِّ وَالْقَصْرِ، وَالْوَبَاءُ: الْمَوْتُ الْعَامُّ وَالْمَرَضُ الْعَامُّ۔
فيض القدير للمناوي: (383/1، ط: المكتبة التجارية الكبرى)
(فلا تدخلوا عليه) أي يحرم عليكم ذلك لأن الإقدام عليه تهور وجرأة على خطر وإيقاع النفس في معرض التهلكة والعقل يمنعه والشرع يأباه قال القاضي: وفيه النهي عن استقبال البلاء لما ذكر (وإذا وقع وأنتم بأرض) أي والحال أنكم فيها (فلا تخرجوا منها فرارا) أي بقصد الفرار منه يعني يحرم عليكم ذلك لأنه فرار من القدر وهو لا ينفع والثبات تسليم لما لم يسبق منه اختيار فيه ولتظهر مزية هذه الأمة على من تقدمهم من الأمم الفارين منه بما يكون من قوة توكلهم وثبات عزمهم كما أظهر الله مزيتهم بما آتاهم من فضله ورحمته التي ينور بها قلوبهم فزعم أن النهي تعبدي قصور قال التاج السبكي مذهبنا وهو الذي عليه الأكثر أن النهي عن الفرار للتحريم أما لو لم يقصد الفرار كأن خرج لحاجة فصادف وقوعه فلا يحرم۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
Wabai, Amraaz, Amraz, say, se, mutaassirah, mutasira, mutasirah, ilakay, ilaakay, say, se, bahar, bahir, jaanay, jaane, jane, janay, ka, hukm, hukum,
Ruling to move out of the area affected by epidemics, pandemic, disease