عنوان: تین دن تاخیر کی صورت میں پورے دن کی تنخواہ کاٹنے کا حکم ملازم سے اضافی وقت(over time) لے کر معاوضہ نہ دینا (3996-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! جہاں میں نوکری کرتا ہوں وہاں پر یہ قانون بنایا گیا ہے کہ اگر مہینے میں تین دفعہ ذرا سی بھی تاخیر ہو جائے، تو ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے، جب کہ اگر کوئی ملازم رات دیر تک بیٹھا کام کرتا رہے تو اسے اضافی کچھ بھی نہیں ملتا، رہنمائی فرمائیں کہ کیا اس طرح سے تنخواہ کاٹنا شرعاً جائز ہے؟

جواب: (1)۔ واضح رہے کہ ملازم کا مالک کے ساتھ کام کا جو وقت طے ہوا ہو، ملازم پر ان اوقات کی پابندی کرنا شرعا بھی ضروری ہے۔ معقول عذر کے بغیر اس میں کوتاہی کرنا معاہدہ کی خلاف ورزی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعا درست نہیں، البتہ اگر کبھی کبھار کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہوجائے، تو اس کی پیشگی اطلاع دینی چاہئے۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں ملازم طے شدہ وقت سے جتنی تاخیر سے آیا ہو، صرف اتنے وقت کی تنخواہ سے کٹوتی کی جاسکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں، لہذا ایک مہینے میں تین دن کی تاخیر کی صورت میں پورے ایک دن کی تنخواہ کاٹنا مالی جرمانہ ہے، جو کہ جائز نہیں، اس سے اجتناب لازم ہے، ملازم کو وقت پابند کرنے کیلئے مالی جرمانے کی بجائے کوئی اور جائز تدبیر اختیار کی جاسکتی ہے۔

(2) ۔ملازم کی رضامندی کے بغیر طے شدہ اوقات سے اضافی وقت لگوانا شرعا درست نہیں، اگر کسی وجہ سے اضافی وقت لگوانا پڑجائے تو اس اضافی وقت کا مناسب معاوضہ بھی دیا جائے، نیز اضافی وقت اور معاوضے (Over time) کے بارے میں جائز حکومتی قانون بھی موجود ہے، جہاں اس قانون کا اطلاق ہوتا ہو، اس کے مطابق عمل کرنا شرعا ضروری ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

روح المعانی: (73/4، ط: زکریا)
"یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ" " :أن المراد بہا ما یعم جمیع ما ألزمہ اللّٰہ تعالیٰ عبادہ وعقد علیہم من التکالیف والأحکام الدینیۃ وما یعقدونہ فیما بینہم من عقود الأمانات والمعاملات ونحوہما مما یجب الوفاء بہ أن یحسن دینا ویحمل الأمر علی مطلق الطلب ندباً أو وجوباً ویدخل في ذٰلک اجتناب المحرمات والمکروہات؛ لأنہ أوفق بعموم اللفظ۔

المحيط البرهاني: (743/7)
وفيه أيضاً: آجر حمّاماً سنة ببدل معلوم على أن يحط عنه أجر شهرين للتعطيل، فالإجارة فاسدة؛ لأن هذا شرط بغير مقتضى العقد؛ لأن مقتضاه لا يلزمه أجرة أيام التعطيل شهراً كان أو أكثر أو أقل فتحكمه بحط أجرة شهرين يخالف مقتضى العقد، حتى لو قال: على أن مقدار ما كان معطلاً فلا أجر عليه فيه يجوز لك، هذا يوافق مقتضى العقد ويقرره. وهو نظير ما قال في «الجامع الصغير» إذا اشترى زيتاً على أن يحط عنه لأجل الرق خمسون رطلاً لا يجوز، ولو قال على أن يحط مقدار وزن الرق جاز.

مجلة الاحکام العدلیة:
الاجیر الخاص یستحق الاجرة اذا کان فی مدة الاجارة حاضرا للعمل ولا یشترط عملہ بالفعل، ولکن لیس لہ یمتنع من العمل واذا امتنع فلا یستحق الاجرة۔

رد المحتار: (61/4)
وَأَفَادَ فِي الْبَزَّازِية أن مَعْنَى التَّعْزِيرِ بِأَخْذِ الْمَالِ عَلَى الْقَوْلِ بِهِ إمْسَاكُ شَيْءٍ مِنْ مَالِهِ عَنْهُ مُدَّةً لِيَنْزَجِرَ ثُمَّ يُعِيدُهُ الْحَاكِمُ إلَيْهِ، لَا أَنْ يَأْخُذَهُ الْحَاكِمُ لِنَفْسِهِ أَوْ لِبَيْتِ الْمَالِ كَمَا يَتَوَهَّمُهُ الظَّلَمَةُ إذْ لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ... وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَذْهَبَ عَدَمُ التَّعْزِير بأَخْذِ الْمَال.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1100 Apr 09, 2020

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.