سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! اگر کسی نے کسی کو قرض دیا ہو تو اس رقم کی زکوة دی جائے گی؟
اور یہ بھی بتائیں کہ زکوة دینے یا نہ دینے کے حکم میں عام قرض اور قرض حسنہ میں کوئی فرق ہے؟
نیز کن کن چیزوں پر زکوة واجب ہے، اس کے بنیادی اصول بیان فرما دیں؟
جواب:
(1) اگر رقم قرض کےطور پر کسی کو دی ہوئی ہے، تو زکوۃ کی ادائیگی قرض دینے والے پر لازم ہے نہ کہ قرض لینے والے پر، البتہ زکوۃ کا ادا کرنا قرض وصول ہونے کے بعد لازم ہو گا، اور اگر قرض وصول ہونے سے پہلے زکوٰۃ ادا کر دی تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، وصول ہونے کے بعد گزشتہ ادا کردہ زکوٰۃ دوبارہ دینا لازم نہیں ہوگی۔
(2) اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو تو ساڑھے باون تولہ چاندی، یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی یا سامانِ تجارت ہو، یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو، تو ایسے شخص پر سال پورا ہونے پر ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السنن الکبري للبیہقی: (باب زکوٰۃ الدین، رقم الحدیث: 7717، 69/6، ط: دار الفکر)
عن ابن عمر قال: زکوا ماکان فی ایدیکم ، فما کان من دین ثقۃ فزکوہ ، وماکان من دین ظنون فلا زکاۃ فیہ حتی یقضیہ صاحبہ ۔
بدائع الصنائع: (2/16- 18)
رد المحتار: (کتاب الزکوٰۃ، 11/2، ط: سعید)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی