سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک شخص نے گزشتہ سال اپنے کل مال کی، مثلاً: کل مال ایک لاکھ روپے ہوں تو اس کا ڈھائی فیصد یعنی ڈھائی ہزار روپے زکوة دی، اگلے سال رقم بڑھ گئی اور دو لاکھ روپے ہو گئے، تو اب رہنمائی فرمائیں کہ وہ پچھلے سال کے ڈھائی ہزار روپے منہا کر کے (کیونکہ ان ایک لاکھ روپوں کی زکوة گزشتہ سال دے دی گئی تھی) ایک لاکھ روپے کی ڈھائی فیصد زکوة دے گا یا مکمل دو لاکھ روپوں کی ڈھائی فیصد زکوة دے گا؟
جواب: آپ کی ہر سال زکوۃ کی جو تاریخ ہے، اس وقت آپ کی ملکیت میں جتنے اموال زکوۃ (Zakatable assets) ہونگے، ان سے قرضے نکالنے کے بعد بقیہ سارے اموال کا ڈھائی فیصد نکالنا ضروری ہے(بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچتے ہوں)،
لہذا مذکورہ صورت میں اگر آپ کے پاس پچھلے سال مثلا ایک لاکھ روپے کے قابل زکوۃ اثاثے تھے، اس کا آپ نے ڈھائی فیصد بطور زکوۃ ادا کر دیا تھا، اب اس سال اگر آپ کے پاس دو لاکھ روپے کے اموال زکوۃ ہیں، تو آپ پورے دو لاکھ روپے کا ڈھائی فیصد نکالیں گے، یعنی اس سال میں جتنا اضافہ ہوا، صرف اس کا ڈھائی فیصد نہیں ہوگا، بلکہ زکوۃ کی تاریخ کو جتنے بھی اموال زکوۃ کے آپ مالک ہونگے، ان تمام کا ڈھائی فیصد نکالا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (237/1، ط: زکریا)
ومن کان لہ نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسہ ضمہ إلی مالہ وزکاہ سواء کان المستفاد من نمائہ أو لا، وبأي وجہ استفاد
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی