عنوان: موجودہ حالات میں صاحب حیثیت شخص کو زکوة یا نفلی صدقے کی رقم دینے کا شرعی حکم(4123-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! آج کل کے جو مشکل حالات ہیں ان میں اکثر وہ لوگ جن کا ذاتی گھر ہے، اچھی تنخواہ ہیں، مگر موجودہ حالات میں تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے کھانے پینے میں تھوڑی بہت مشکلات کا شکار ہیں، تو اس طرح کے لوگ اگر صدقہ یا زکوٰۃ و خیرات کے راشن لے لیں، تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب: جس غیر سید مسلمان کے پاس سونا، چاندی، مال تجارت، نقدی یا گھر میں ضرورت اصلیہ (روزمرہ استعمال کی اشیاء) سے زائد سامان ہو، ان پانچوں میں سے بعض یا کل کا مجموعہ یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت اگر چاندی کے نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) تک نہیں پہنچتی ہے یا نصاب کو تو پہنچتی ہے، لیکن وہ قرض دار ہے، اور قرض منہا کرنے کے بعد وہ بقدر نصاب مالیت کا مالک نہیں رہتا، تو ایسا شخص زکوة کا مستحق ہے۔
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق مستحق زکوة نہیں ہے، لیکن نقد رقم نہ ہونے کی وجہ سے کھانے پینے اور اہل وعیال کے اخراجات وغیرہ میں تنگی کا سامنا ہے، تو ایسے شخص کو زکوة نہیں دی جاسکتی ہے، البتہ نفلی صدقات کی رقم سے اس کی مدد کرنی چاہیے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ .
اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتۡبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِم وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ۔
(سورة البقرة : 261-262)

ترجمہ:
جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگائے (اور) ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے ( ثواب میں) کئی گنا اضافہ کردیتا ہے، اللہ بہت وسعت والا (اور) بڑے علم والا ہے۔
جو لوگ اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتے ہیں، اور نہ کوئی تکلیف پہنچاتے ہیں، وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثواب پائیں گے، نہ ان کو کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کوئی غم پہنچے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (التوبة، الایة: 60)
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌo

تفسیر القرطبی: (171/8، ط: دارالکتب المصریة)
الخامسة- وقد اختلف العلماء في حد الفقر الذي يجوز معه الأخذ- بعد إجماع أكثر من يحفظ عنه من أهل العلم- أن من له دارا وخادما لا يستغني عنهما أن له أن يأخذ من الزكاة، وللمعطي أن يعطيه....
وقال أبو حنيفة: من معه عشرون دينارا أو مائتا درهم فلا يأخذ من الزكاة. فاعتبر النصاب لقوله عليه السلام: (أمرت أن آخذ الصدقة من أغنيائكم وارد ها في فقرائكم). وهذا واضح، ورواه المغيرة عن مالك.

الدر المختار مع رد المحتار: (347/2، ط: دار الفکر)
(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان....
(قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 456 Apr 24, 2020
mojooda halaat main sahib e hasiyat shakhs ko zakat ia nafli sadqa ki raqam dene / daine ka shar'ee hukum / hukam, In the present circumstances, the shar'i ruling on giving Zakat or Nafil / nafli Sadaqah to a person of high status

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.