سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! اگر ایک شخص کو ایک پراجیکٹ ملے اور اس کا ریٹ مارکیٹ ریٹ کے مطابق طے ہو جائے، پھر پراجیکٹ لینے والا شخص اس پراجیکٹ کو اسی ریٹ میں کسی اور کو کرنے کیلیے دے دے اور کام کرنے والے سے جتنا بھی پرافٹ طے ہو جائے لے لے، تو کیا ایسا کاروبار یا کام کرنا کرانا جائز ہے؟
جواب: مذکورہ معاملہ میں درج ذیل شرائط پائی جائیں، تو اس طرح آگے کسی اور شخص سے کام کروانے کی گنجائش ہے، وہ شرائط یہ ہیں:
1۔ وہ کام فی نفسہ جائز ہو۔
2۔ پراجیکٹ دینے والے کی طرف سے یہ شرط نہ لگائی گئی ہو کہ وہ خود کام کرکے دے۔
3۔ آگے کسی اور سے کام کروانے کی صورت میں کسٹمر کے ساتھ پراجیکٹ کا طے شدہ معیار(Quality)کوالٹی متاثر نہ ہورہی ہو۔
4۔ فریقین کے درمیان کام کی نوعیت اور اجرت واضح طور پر متعین اور پہلے سے طے شدہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تبیین الحقائق: (کتاب الإجارة، 112/5، ط: امدادیة)
وان اطلق کان لہ ان یستاجرغیرہ لان الواجب علیہ عمل فی ذمتہ ویمکنہ الایفاء، بنفسہ و بالاستعانۃ بغیرہ
مجلة الاحکام: (الفصل الرابع فی إجارة الآدمي، المادة: 571، ص: 306)
الاجیر الذی استوجب علٰی ان یعمل بنفسہٖ لیس لہٗ ان یستعمل غیرہ مثلاً لو اعطی احد جبۃ لخیاط علٰی ان یخیطھا بنفسہ بکذا دراھم فلیس للخیاط علٰی ان یخیطھا لغیرہ بل یلزم ان یخیطھا بنفسہٖ وان خاطہا بغیرہ وتلفت فھو ضامن۔
الھدایة: (باب الاجر متی یستحق، 296/3)
واذا شرط علی الصانع ان یعمل بنفسہ فلیس لہ ان یستعمل غیرہ لانہ المعقود علیہ اتصال العمل فی محل بعینہٖ فیستحق عینہ کالمئفعۃ فی محل بعینہٖ۔
شرح المجلة لسلیم رستم باز: (الفصل الثالث فی شروط صحۃ الاجارۃ، المادة: 450، 451)
یشترط ان تکون الاجرۃ معلومۃ۔۔۔۔یشترط فی الاجارۃ ان تکون المنفعۃ معلومۃ بوجہ یکون مانعا للمنازعۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی