سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک شخص کو کہیں رستے میں سونا (زیورات) ملا اور مالک نہ ملنے کی وجہ اس نے سونا بیچ کر اس سے ملنے والی رقم خرچ کر دی، اب کئی سال بعد اس کا اصل مالک مل گیا ہے، تو اب ادائیگی کے لیے پرانے ریٹ کے حساب سے نقدی متعین کرے گا یا آج کل کے ریٹ کے مطابق؟
نیز یہ بھی بیان فرمائیں کہ نئے زیورات کی قیمت بازار میں الگ ہوتی ہے، جب کہ پرانے زیورات کی الگ ہوتی ہے؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں ان زیورات میں استعمال شدہ سونے کی قیمت آج کل کے حساب سے لگائی جائے گی، جبکہ زیورات کی بنوائی کی قیمت ان دنوں کے حساب سے لگائی جائے گی، جن دنوں میں آپ کے ساتھی نے زیورات کو بیچا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية: (کتاب اللقطة، 418/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
قال: " فإن جاء صاحبها " يعني بعد ما تصدق بها " فهو بالخيار إن شاء أمضى الصدقة " وله ثواها لأن التصدق وإن حصل بإذن الشرع لم يحصل بإذنه فتيوقف على إجازته والملك يثبت للفقير قبل الإجازة فلا يتوقف على قيام المحل بخلاف بيع الفضولي لثبوته بعد الإجازة فيه " وإن شاء ضمن الملتقط " لأنه سلم ماله إلى غيره بغير إذنه إلا أنه بإباحة من جهة الشرع وهذا لا ينافي الضمان حقا للعبد كما في تناول مال الغير حالة المخمصة وإن شاء ضمن المسكين إذا هلك في يده لأنه قبض ماله بغير إذنه وإن كان قائما أخذه لأنه وجد عين ماله.
الدر المختار: (کتاب اللقطة، 183/6، ط: دار الفکر)
يجب رد (مثله إن هلك وهو مثلي وإن انقطع المثل) بأن لا يوجد في السوق الذي يباع فيه وإن كان يوجد في البيوت ابن كمال (فقيمته يوم الخصومة) أي وقت القضاء وعند أبي يوسف يوم الغصب وعند محمد يوم الانقطاع ورجحه قهستاني (وتجب القيمة في القيمي يوم غصبه) إجماعا.
واﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی