عنوان: انشورنس یعنی بیمہ کروانے کا شرعی حکم(418-No)

سوال: مجھے بیمہ سے متعلق معلوم کرنا ہے کہ اسلام میں بیمہ کی کیا حیثیت ہے؟

جواب: بیمہ انگریزی لفظ انشورنس (Insurance) کا ترجمہ ہے، جس کے معنی لغت میں یقین دہانی کے ہیں۔ بیمہ کا مفہوم یہ ہے انسان کو مستقبل میں جو خطرات درپیش ہوتے ہیں، کوئی انسان یا ادارہ ماہانہ یا سالانہ رقم کے عوض یہ ضمانت لیتا ہے کہ فلاں قسم کے خطرات کے مالی نقصانات کی تلافی میں کردوں گا۔
علمائے اسلام کی اکثریت نے بیمہ کو غرر، قمار اور ربا پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز قرار دیا ہے، بیمہ میں قمار (جوا) اس طرح ہے کہ ایک طرف سے رقم کی ادائیگی متعین ہے اور دوسری طرف سے ادائیگی موہوم ہے، اور جو قسطیں ادا کی گئی ہیں، وہ تمام رقم ڈوب بھی سکتی ہے اور اس سے زیادہ بھی مل سکتی ہے، اسی کو شریعت میں قما ر(جوا) کہتے ہیں۔ اور ربا (سود) اس طرح ہے کہ یہاں روپے کا روپے سے تبادلہ ہے اور اس میں تفاضل (زیادتی) ہے کہ بیمہ دار کی طرف سے کم رقم دی جاتی ہے اور اس سے زیادہ ملتی ہے۔ اور غرر (دھوکہ) اس طرح ہے کہ معلوم نہیں کہ کتنی رقم واپس ہوگی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جتنی رقم دی تھی، وہی بمع سود کے واپس ملے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی حادثے کی وجہ سے زیادہ رقم مل جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرہ، الآیۃ: 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo

و قولہ تعالی: (المآئدۃ، الآیۃ: 90)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo

صحیح مسلم: (227/2)
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.

عمدۃ القاری: (435/8)
الغرر ھو فی الاصل الخطر، و الخطر ھو الذی لا یدری أ یکون ام لا، و قال ان عرفۃ: الغرر ھو ما کان ظاھرہ یغر و باطنہ مجہول، قال و الغرور ما راأیت لہ ظاہرا تحبہ و باطنہ مکروہ أو مجہول، و قال الأزہری: البیع الغرر ما یکون علی غیر عھدۃ و لا ثقۃ، و قال صاحب المشارق: بیع الغرر بیع المخاطرۃ، و ھو الجہل بالثمن أو المثمن أو سلامتہ أو أجلہ۔

مصنف ابن ابی شیبہ: (کتاب البیوع و الاقضیہ، 483/4، ط: مکتبة الرشد)
عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر".

رد المحتار: (کتاب الحظر و الاباحۃ، 403/6، ط: سعید)
(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 732 Jan 06, 2019
Insurance yaani Beema karwanay ka sharai hukm, beema e zindagi, zindagi ka beema, kya life insurance haram hai, Insurance Halaal hai ya Haraam, Beema policy, Bima policy, Islamic Ruling (Law) on Life Insurance, Is having life insurance haram, Life insurance in Islam, Is life insurance allowed in Islam, Life insurance is Halaal, Life Insurance is Haraam, Takaful, Fatwa on life insurance, state life insurance, health insurance, car insurance

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Loan, Interest, Gambling & Insurance

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.