سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! تراویح کی رکعات کی تعداد کیا ہے؟ بیس رکعات تراویح پڑھی جائے یا آٹھ رکعات تراویح پڑھی جائے؟ ائمہ اربعہ کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟ کیا بیس رکعات سے کم تراویح پڑھنے سے گناہ لازم آئے گا؟
جواب: ائمہ اربعہ(امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد رحمھم اللہ) کے نزدیک بالاتفاق بیس رکعت تراویح سنت مؤکدہ ہے۔
جس سنت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے خلفاء راشدین نے مداومت نہیں کی، بلکہ اس کو کبھی کبھی انجام دیا ہو، اس کو سنت غیر مؤکدہ کہتے ہیں۔
اور جس کام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے خلفاء راشدین نے ہمیشہ کیا، اور اس پر مداومت فرمائی ہے، اس کو سنت مؤکدہ کہتے ہیں۔
چونکہ بیس رکعت تراویح حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی قائم کردہ ہے، اور اس پر انہوں نے ہر رمضان میں جماعت کے ساتھ ہمیشہ مواظبت بھی کی ہے، کبھی ترک نہیں کیا، اور اس پر اس وقت کے تمام صحابہ کرام اور امت کا اجماع بھی ہوچکا ہے، اور سلف سے خلف تک، ابتدائے اسلام سے آج تک اسی پر عمل درآمد ہوتا چلا آرہا ہے، اس لئے بیس رکعات تراویح کی نماز پڑھنا سنّت مؤکدہ ہے، اور تراویح کی نماز قصداً بیس سے کم پڑھنا گناہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (493/2، ط: زکریا)
التراویح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال والنساء إجماعاً ووقتہا بعد صلاۃ العشاء إلی الفجر۔
سنۃ مؤکدۃ، صححہ في الہدایۃ وغیرہا وہو المروي عن أبي حنیفۃ، وفي شرح منیۃ المصلي: وحکی غیر واحد الإجماع علی سنیتہا۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی