سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ تراویح کی نماز جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کس طرح پڑھی جاتی تھی، اور اس کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں تراویح کے پڑھنے کی کیا صورت تھی ؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں صرف تین رات تراویح کی نماز کو جماعت کے ساتھ ادا فرمایا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اندیشے سے اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا چھوڑ دیا کہ کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ ہو جائے، اور صحابہ کرام کو اپنے اپنے گھروں میں انفرادی طور پر نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی اور خود بھی وفات تک اس کو گھر میں ہی ادا کرتے رہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا پورا زمانہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں یہی صورتحال رہی کہ سب لوگ انفرادی طور پر جماعت کے بغیر یا پھر چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں تقسیم ہوکر تراویح کی نماز ادا کرتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دور کے دوسرے سال ماہ رمضان المبارک 14 ہجری میں ایک امام کی اقتدا میں سب لوگوں کو تراویح کی نماز کی جماعت پر اکٹھا کیا، اور مشہور صحابی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو اس جماعت کا امام مقرر کیا، اور کسی ایک صحابی نے بھی اس موقع پر کوئی نکیر نہیں فرمائی، اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت پر فرض ہوجانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ راشد ہونے کی حیثیت سے پھر سے جاری فرمایا، اور آج تک جاری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 1373، ط: المکتبة العصریة)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلي في المسجد فصلی بصلاتہ ناس ثم صلی من القابلۃ فکثر الناس ثم اجتمعوا من اللیلۃ الثالثۃ فلم یخرج إلیہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فلما أصبح قال: قد رأیت الذي صنعتم فلم یمنعني من الخروج إلیکم إلا أني خشیت أن تفرض علیکم وذٰلک في رمضان۔
سنن النسائی: (رقم الحدیث: 1604، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية)
عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى في المسجد ذات ليلة، وصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة، وكثر الناس ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة أو الرابعة فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أصبح قال: «قد رأيت الذي صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن يفرض عليكم» وذلك في رمضان
صحیح البخاری: (باب فضل من قام رمضان، رقم الحدیث: 2010)
عن عبد الرحمن بن عبدٍ القاري أنہ قال: خرجت مع عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ لیلۃ في رمضان إلی المسجد فإذا الناس أوزاع متفرقون یصلي الرجل لنفسہ، ویصلي الرجل فیصل بصلا تہ الرہط، فقال عمر: إني أری لو جمعت ہٰؤلاء علی قارئ واحد لکان أمثل، ثم عزم فجمعہم علی أبي بن کعب …الخ۔
فتح الباری: (314/5- 315، ط: دار الکتب العلمیة)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی