سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! آج کل رواج ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں لوگ شبینہ پڑھتے ہیں، اور اس میں بہت سے تکلفات ہوتے ہیں، کیا اس طرح شبینہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ اگر شبینہ میں تراویح کی نماز پڑھائی جاتی ہو، نہ کہ نفل نماز، اور اس میں فضول خرچی، شور شرابہ، نام و نمود، بلا ضرورت چراغاں، اور ضرورت سے زائد لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہ ہو، فرائض اور واجبات کی طرح پابندی بھی نہ ہو، اور تمام لوگ ذوق وشوق کے ساتھ قرآن کریم سنتے ہوں، نیز قرأت اس طرح کی جاتی ہو کہ حروف اور زیر زبر سمجھ میں آتے ہوں، اور غلطی اور متشابہ کا خیال بھی رکھا جاتا ہو، تو شبینہ جائز ہے، ورنہ جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المزمل، الایة: 4)
وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاًo
سنن الترمذی: (أبواب القراء ۃ، رقم الحدیث: 2949، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن عبد الله بن عمرو، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لم يفقه من قرأ القرآن في أقل من ثلاث.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی