سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! آج کل رواج ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں لوگ شبینہ پڑھتے ہیں، اور اس میں بہت سے تکلفات ہوتے ہیں، کیا اس طرح شبینہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ ہمارے زمانہ میں رائج شبینہ میں کئی شرعی مفاسد پائے جاتے ہیں، مثلاً: نفل جماعت تداعی کے ساتھ پڑھنا، ضرورت سے زائد لاؤڈ اسپیکر کا اس قدر استعمال کرنا کہ جس سے اہل محلہ کے آرام یا عبادت میں خلل واقع ہو، بلا ضرورت کثیر تعداد میں لائٹیں جلانا، مٹھائی کا اہتمام کرنا، حفاظ کا قواعدِ تجوید کی رعایت کے بغیر قرآن پاک پڑھنا وغیرہ، ان شرعی مفاسد کے پائے جانے کی وجہ سے مروجہ شبینہ کا اہتمام کرنا ناجائز ہے، البتہ اگر شبینہ تراویح کی جماعت میں ہو اور اس میں مذکورہ بالا شرعی مفاسد نہ ہوں اور اسے فرض یا واجب کا درجہ بھی نہیں دیا جاتا ہو تو اس کے پڑھنے کی گنجائش ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المزمل، الایة: 4)
وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاًo
سنن الترمذی: (أبواب القراء ۃ، رقم الحدیث: 2949، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن عبد الله بن عمرو، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لم يفقه من قرأ القرآن في أقل من ثلاث.
الفتاویٰ الھندیۃ: (کتاب الصلاۃ،1/ 83، ط:رشیدیہ)
"التطوع بالجماعة إذا كان على سبيل التداعي يكره وفي الأصل للصدر الشهيد أما إذا صلوا بجماعة بغير أذان وإقامة في ناحية المسجد لا يكره، وقال شمس الأئمة الحلواني: إن كان سوى الإمام ثلاثة لا يكره بالاتفاق وفي الأربع اختلف المشايخ والأصح أنه يكره. هكذا في الخلاصة."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی