سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ہمارے علاقے میں تراویح پڑھانے کے لیے حافظ صاحب کو باقاعدہ طور پر بلایا جاتا ہے، اور اس کو تراویح پڑھانے کی اجرت بھی دی جاتی ہے، کیا اس طرح تراویح پڑھانے کی اجرت لینا جائز ہے؟ جبکہ بعض مرتبہ حافظ اس اجرت کے لینے سے انکار بھی کرتے ہیں، اور بعض مرتبہ لے بھی لیتے ہیں۔
جواب: واضح رہے کہ حافظ کا تراویح میں قرآن سنانے پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، اگر کسی نے اجرت لے لی، تو اسے اصل مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہے، البتہ اگر حافظ کے اجرت لینے سے انکار کے باوجود انفرادی طور پر لوگوں نے ہدیہ کے طور پر کچھ دیا ہو تو لینے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (باب الإجارۃ الفاسد، 56/6، ط: سعید)
فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز؛ لأنہ فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاری ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان؛ بل جعلوا القرآن العظیم مکسبًا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی