سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ہمارے علاقے میں تراویح پڑھانے کے لیے حافظ صاحب کو باقاعدہ طور پر بلایا جاتا ہے، اور اس کو تراویح پڑھانے کی اجرت بھی دی جاتی ہے، کیا اس طرح تراویح پڑھانے کی اجرت لینا جائز ہے؟ جبکہ بعض مرتبہ حافظ اس اجرت کے لینے سے انکار بھی کرتے ہیں، اور بعض مرتبہ لے بھی لیتے ہیں۔ معاوضہ لینے کے لیے لوگوں کو ترغیب دیتے ہوئے حدیث مبارکہ پیش کرتے ہیں کہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ سفرمیں تھے اور صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کے پاس خرچہ اخراجات ختم ہو گئے تو صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ ( ایک بستی میں تھے تو انہوں نے بستی والوں سے کچھ مانگا تو بستی والوں نے انکار کر دیا بستی والوں کا ایک آدمی بیمار ہو گیا جو بستی والوں کا سربراہ تھا وہ ٹھیک نہیں ہو رہا تھا تو بستی والے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ کیا آپ ہمارے آدمی کا علاج کر دو گے تو حضرات صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم علاج کر دیں گے لیکن 40 بکریاں معاوضہ لیں گے تو صحابی رسول نے سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو ان کا آدمی ٹھیک ہو گیا تو بستی والوں نے وعدہ کے مطابق 40 بکریاں دے دیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے یہ محسوس کیا کہ پتہ نہیں یہ جائز ہے یا نہیں؟ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ جائز ہے اور اس میں میرا حصہ بھی رکھ لیں۔ تراویح میں قرآن پاک سنانے والے اس حدیث مبارکہ کو دلیل بنا کر معاوضہ لے سکتا ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ حافظ کا تراویح میں قرآن سنانے پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، اگر کسی نے اجرت لے لی، تو اسے اصل مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہے، البتہ اگر حافظ کے اجرت لینے سے انکار کے باوجود انفرادی طور پر لوگوں نے ہدیہ کے طور پر کچھ دیا ہو تو لینے کی گنجائش ہے۔
تراویح پر اجرت کے جائز ہونے کے لیے سوال میں ذکر کردہ حدیث پیش کرنا درست نہیں ہے، کیوں کہ حدیث میں واضح ہے کہ انہوں نے دم کرنے کی اجرت لی تھی نہ کہ تراویح پڑھانے کی اور دم کرنے پر اجرت لینا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (باب الإجارۃ الفاسد، 56/6، ط: دارالفکر)
"فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اه ..... وما استدل به بعض المحشين على الجواز بحديث البخاري في اللديغ فهو خطأ؛ لأن المتقدمين المانعين الاستئجار مطلقا جوزوا الرقية بالأجرة ولو بالقرآن كما ذكره الطحاوي؛ لأنها ليست عبادة محضة بل من التداوي."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی