سوال:
مفتی صاحب! فلیٹ دوسرے صاحب کو فروخت نہیں کیا ہے، بلکہ وہ دونوں کی ملکیت میں ہے، جب فروخت ہوگا (یا وہ دوسرے صاحب اس کو اپنے لئے رکھ لیں گے) اس وقت کی قیمت فروخت کے حساب سے ہم دونوں اپنا حصہ بقدر اپنے لگائے گئے سرمائے کے اعتبار سے تقسیم کر لیں گے۔ اس صورت میں زکوة کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ کسی مکان یا فلیٹ کی خریداری کے وقت اگر اسے آگے بیچنے کی نیت ہو، تو ایسی صورت میں اس مکان یا فلیٹ پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں چونکہ آپ نے فلیٹ میں دوسرے شخص کو شریک کر کے آئندہ اپنے حصے کو فروخت کرنے کی نیت کی ہے، تو آپ پر فلیٹ میں اپنے حصے کی مالیت کے بقدر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مصنف ابن أبی شیبة: (فی المتاع یکون عند الرجل یحول علیہ الحول، رقم الحدیث: 10560، ط: مؤسسة علوم القرآن)
عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: "لیس فی العروض زکاۃ، إلا عرض فی تجارۃ ،فإن فیہ زکاۃ".
السنن الکبریٰ للبیہقی: (باب زکاۃ التجارۃ، رقم الحدیث: 7698، ط: دار الفکر)
الأشباہ: (ص: 38)
"وتشترط نیۃ التجارۃ فی العروض ولابد أن تکون مقارنۃ للتجارۃ فلو اشتریٰ شیئا لنفسہ ناویاً أنہ إن وجد ربحاً باعہ لازکوٰۃ علیہ الخ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی