resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ’’ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز (تراویح) فرض نہ کر دی جائے‘‘ حدیث کی صحیح تشریح اورباجماعت تراویح کے سنت مؤکدہ ہونے پر دلیل(4224-No)

سوال: مندرجہ ذیل حدیث کے حوالہ نمبر کی تصدیق فرمادیں: "رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز (تراویح) فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے، پس اے لوگوں اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو، کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔ (صحیح البخاری: حدیث نمبر،731، صحیح مسلم: حدیث نمبر،1825، جامع ترمذی: حدیث نمبر،450)
نیز مفتی صاحب اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ تراویح کی نماز جناب رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانہ میں نہیں تھی یہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لوگوں نے رمضان کے مہینے میں بالالتزام جماعت کے ساتھ تراویح کو پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں نمازِ تراویح کا شرعی حکم سنت مؤکدہ قرار دینا کیسا ہے؟

جواب: سوال میں ذکر کردہ حوالے درست ہیں،البتہ سوال میں ذکرکردہ حدیث سے یہ قطعاًثابت نہیں ہوتا ہے کہ تروایح کی نمازکو سنتِ مؤکدہ کہنا غلط ہے ،کیونکہ خود جناب رسول اللہ ﷺ نے تین دن تک اس کی جماعت کروائی ہے،البتہ صرف اس اندیشے کے پیش نظر کہ مبادا فرض ہو جائے اور لوگ اس سے عاجز آ جائیں ،آپ ﷺ نے س کی جماعت کا باقاعدہ اہتمام نہیں فرمایالیکن جب رسول اللہ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے اور وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وجوب کا اندیشہ نہ رہا تو حضرت عمر ؓ نے اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنایا تھا، اس نماز کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ اور مختصر تشریح ذکر کی جاتی ہے۔
ترجمہ:حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے رمضان میں ایک حجرہ بنا لیا یا اوٹ (پردہ) بسر بن سعید نے کہا میں سمجھتا ہوں وہ بورئیے کا تھا۔ آپ نے کئی رات اس میں نماز پڑھی۔ صحابہ میں سے بعض حضرات نے ان راتوں میں آپ کی اقتداء کی۔ جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے بیٹھ رہنا شروع کیا (نماز موقوف رکھی) پھر برآمد ہوئے اور فرمایا تم نے جو کیا وہ مجھ کو معلوم ہے، لیکن لوگو! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہو، کیونکہ بہتر نماز آدمی کی وہی ہے، جو اس کے گھر میں ہو۔ مگر فرض نماز (مسجد میں پڑھنی ضروری ہے)۔(بخاری،حدیث نمبر: 731)(۱)
تشریح :
واضح رہے کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے ،جس پر درج ذیل احادیث دلالت کرتی ہیں:
بخاری (حدیث نمبر: 2012) اور مسلم (حدیث نمبر: 761)میں ہے:
ترجمہ: حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (رمضان میں) ایک مرتبہ نصف شب کے وقت مسجد میں تشریف لے گئے تو وہاں نماز تراویح پڑھی۔ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ صبح ہوئی تو انھوں نے اس کا چرچا کیا، چنانچہ دوسری رات لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہوگئے اور آپ کے ہمراہ نماز (تراویح)پڑھی دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا۔ پھرتیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے۔ نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ کی اقتدا میں نماز (تراویح ) اداکی۔ جب چوتھی رات آئی تو اتنے لوگ جمع ہوئے کہ مسجد نمازیوں سے عاجز آگئی یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لیے آپ باہر تشریف لائے۔ جب نماز فجر پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، خطبہ پڑھا پھر فرمایا: ’’واقعہ یہ ہے کہ تمھارا موجود ہونا مجھ پر مخفی نہ تھالیکن مجھے اندیشہ ہوا کہ مبادا نماز شب فرض ہو جائے، پھر تم اسے ادانہ کر سکو۔‘‘ رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے اور یہ معاملہ اسی طرح رہا۔(۲)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں تین دن تک تراویح کی جماعت کروائی ،لیکن پھر اس خوف سےکہ کہیں فرض نہ ہوجائے‘ تین دن سے زیادہ جماعت نہیں کرائی اور صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین نے انفرادی و اجتماعی طور پر تراویح پڑھنے کا یہ معمول جاری رکھا، پھرجب رسول اللہ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے اور وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وجوب کا اندیشہ نہ رہا تو حضرت عمر ؓ نے اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنایا تھا، اس باجماعت تراویح ادا کرنے کا اہتمام فرمایا، جیسا کہ بخاری شریف میں ہے:ترجمہ:حضرت عبدالرحمان بن عبد القاری سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں رمضان کی ایک رات حضرت عمر ؓ کے ساتھ مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے۔ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا۔ اور کوئی کسی کے پیچھے کھڑا تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کردوں توزیادہ مناسب ہوگا۔ چنانچہ انھوں نے اس عزم و ارادے کے ساتھ حضرت ابی بن کعب ؓ کو ان کا امام مقرر کردیا۔ دوسری رات پھر مجھے ان کی معیت میں مسجد نبوی ﷺ جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ لوگ ا پنے امام کے پیچھے نماز تراویح پڑھ رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی ؓ نے انھیں دیکھ کر فرمایا کہ یہ نیا طریقہ کس قدر بہتر اور مستحسن ہے!اور رات کا وہ حصہ جس میں یہ سو جاتے ہیں اس حصے سے بہتر ہے جس میں یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصے کی فضیلت سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔(بخاری،حدیث نمبر: 2010)(۳)
یاد رہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس فعل کو بدعت سے اس لیےکہا کہ جناب رسول اللہ ﷺ کے زمانے اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں نماز تراویح اس طرح نہیں پڑھی جاتی تھی، اس اعتبار سے ان کے عہد خلافت میں یقیناً یہ نیا کام تھا، لیکن فی الحقیقت یہ کام رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں کیا جا چکا تھا اور زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے مراد بدعت لغوی ہے شرعی نہیں کیونکہ لغت میں بدعت ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جس کی ابتدا پہلی مرتبہ کی گئی ہو ،جبکہ شرعی بدعت یہ ہے کہ ہر ایسا کام جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو اورنیز بدعت کی دو قسمیں ہیں: ایک بدعت حسنہ، ایک بدعت سیئہ ،بدعت حسنہ مستحن ہے اور بدعت سیئہ قبیح ہے۔(۴)،نیز تراویح کو بدعت اس لیے بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ میرے بعد دو آدمیوں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہما)کی اقتدا اور پیروی کرنا،لہذا جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع منعقد ہوگیا اور باجماعت تراویح پڑھنےکو بدعت کہنے کی کوئی وجہ باقی نہ رہی۔(۵)
خلاصہ ٔ کلام :
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ تراویح کی نماز سنت مؤکدہ ہے اور خود جناب رسول اللہ ﷺ نے تین دن تک اس کی جماعت کروائی تھی ،لہذا یہ کہنادرست نہیں ہے کہ یہ تراویح کی جماعت بدعت ہے اور حضرت عمرنے سب سے پہلے شروع کی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(۱) صحیح البخاري: (1/147،رقم الحدیث: 731،ط: دارطوق النجاہ)
عن زيد بن ثابت: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة - قال: حسبت أنه قال من حصير - في رمضان، فصلى فيها ليالي، فصلى بصلاته ناس من أصحابه، فلما علم بهم جعل يقعد، فخرج إليهم فقال: «قد عرفت الذي رأيت من صنيعكم، فصلوا أيها الناس في بيوتكم، فإن أفضل الصلاة صلاة المرء في بيته إلا المكتوبة».

(۲) صحیح البخاري: (3/45)،رقم الحدیث:2012،ط: دارطوق النجاہ)
عن ابن شهاب، أخبرني عروة، أن عائشة رضي الله عنها، أخبرته: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج ليلة من جوف الليل، فصلى في المسجد، وصلى رجال بصلاته، فأصبح الناس فتحدثوا، فاجتمع أكثر منهم فصلى فصلوا معه، فأصبح الناس فتحدثوا، فكثر أهل المسجد من الليلة الثالثة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة عجز المسجد عن أهله، حتى خرج لصلاة الصبح، فلما قضى الفجر أقبل على الناس، فتشهد، ثم قال: «أما بعد، فإنه لم يخف علي مكانكم، ولكني خشيت أن تفترض عليكم، فتعجزوا عنها»، فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والأمر على ذلك.

(۳) صحیح البخاري: (3/45)،رقم الحدیث:2010،ط: دارطوق النجاہ)
عن عبد الرحمن بن عبد القاري، أنه قال: خرجت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه، ليلة في رمضان إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر: «إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد، لكان أمثل» ثم عزم، فجمعهم على أبي بن كعب، ثم خرجت معه ليلة أخرى، والناس يصلون بصلاة قارئهم، قال عمر: «نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون» يريد آخر الليل وكان الناس يقومون أوله.

(۴)عمدة القاري:(11/ 126،ط: دار إحياء التراث العربي)
قوله: (نعم البدعة) ، ويروى: (نعمت البدعة) ، بزيادة التاء، ويقال: نعم، كلمة تجمع المحاسن كلها، وبئس، كلمة تجمع المساوىء كلها، وإنما دعاها بدعة لأن رسول الله، صلى الله عليه وسلم، لم يسنها لهم، ولا كانت في زمن أبي بكر، رضي الله تعالى عنه. ورغب رسول الله، صلى الله عليه وسلم، فيها بقوله: نعم، ليدل على فضلها، ولئلا يمنع هذا اللقب من فعلها. والبدعة في الأصل أحداث أمر لم يكن في زمن رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ثم البدعة على نوعين: إن كانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي بدعة حسنة، وإن كانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي بدعة مستقبحة.

(۵)شرح القسطلاني على البخاري :(3/ 426،ط: المطبعة الكبرى الأميرية)
وقيام رمضان ليس بدعة لأنه -صلى الله عليه وسلم- قال: "اقتدوا بالذين من بعدي أبي بكر وعمر" وإذا أجمع الصحابة مع عمر على ذلك زال عنه اسم البدعة.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

kia tahajjud or / aur taraweeh do alag alag namazin hain?, Are Tahajjud and Taraweeh two separate prayers?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees